ابنِ صفی (عزیزامین کے انداز میں)

نایاب

لائبریرین
ابن صفی مرحوم اک ایسے لکھاری جنہوں نے اپنے قلم سے اک ایسی دھنک کی تخلیق کی جس کے سب رنگ جیتے جاگتے کردار محسوس ہوتے پڑھنے والے کو زندگی سےبھرپورمعاشرے کے پرپیچ اور غیر متوازن ماحول سے کچھ ایسے آشنا کرتے ہیں کہ قاری نہ چاہتے ہوئے بھی ان کرداروں کی اقتدا پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ غیر محسوس طریقے سے یہ کردار قاری کی شخصیت کی تعمیر کرتے اسے معاشرے سے محبت کا چلن سکھاتے ہیں ۔ اور معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف جنگ کے داؤ سکھاتے ہیں ۔ ابن صفی کا تخلیق کردہ ہر کردار اپنے آپ میں مکمل اور ناقابل فراموش شخصیت کا مالک ہے ۔ چاہے وہ خیر کا نمائندہ ہے یا کہ شر کا پجاری ۔
ابن صفی نے اپنے کرداروں کو عام انسان کے روپ میں پیش کیا ہے جو اپنی شوق و خواہش کی تکمیل کے لیئے ان تھک محنت کرتا ہے ۔ اور ناکامیوں سے کبھی ہار نہیں مانتا ۔ ہنستے مسکراتے دنیا کو ہنساتے زندگی کی جنگ میں مصروف رہتا ہے ۔ ابن صفی اپنے قاری کو نہ صرف زندگی کے گوناگوں رنگ و ہنگامے دکھاتا ہے بلکہ ساتھ ہی معلومات کی ترسیل کرتے علم کی شمع بھی جلائے رکھتا ہے ۔
ابن صفی کی تخلیق کردہ کسی بھی کردار کی شخصیت کو مختصر بیان کرنا اک مشکل امر ہے ۔ ہر کردار عام انسان کی مانند پر پیچ پہلو در پہلو خواہشات نفسیات پر مشتمل اک گورکھ دھندا ہے ۔ اور بہر صورت یہ اعتراف کرتے دکھائی دیتا ہے کہ " کی جاناں میں کون "
عمران اک ایسا کردار جو کہ دو انتہاؤں میں پستے ہوئے ہوش سنبھالتا ہے ۔ اک طرف مذہب کی پاسداری اور دوسری جانب مشن سکول کی تعلیم ۔ تضاد میں الجھتے دوہری زندگی کا عادی عمران کا کردار ہمارے معاشرے میں موجود دوہری تضاد کی حامل زندگی پر اک گہرا طنز ۔۔۔۔۔۔۔
کسی اک رخ چلتے ابن صفی کی سوچ کو بیان کرنا ناممکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حق مغفرت فرمائے عجب آزاد مرد تھا ۔۔۔۔۔ آمین
 

دلاور خان

لائبریرین
ابن صفی مرحوم اک ایسے لکھاری جنہوں نے اپنے قلم سے اک ایسی دھنک کی تخلیق کی جس کے سب رنگ جیتے جاگتے کردار محسوس ہوتے پڑھنے والے کو زندگی سےبھرپورمعاشرے کے پرپیچ اور غیر متوازن ماحول سے کچھ ایسے آشنا کرتے ہیں کہ قاری نہ چاہتے ہوئے بھی ان کرداروں کی اقتدا پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ غیر محسوس طریقے سے یہ کردار قاری کی شخصیت کی تعمیر کرتے اسے معاشرے سے محبت کا چلن سکھاتے ہیں ۔ اور معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف جنگ کے داؤ سکھاتے ہیں ۔ ابن صفی کا تخلیق کردہ ہر کردار اپنے آپ میں مکمل اور ناقابل فراموش شخصیت کا مالک ہے ۔ چاہے وہ خیر کا نمائندہ ہے یا کہ شر کا پجاری ۔
ابن صفی نے اپنے کرداروں کو عام انسان کے روپ میں پیش کیا ہے جو اپنی شوق و خواہش کی تکمیل کے لیئے ان تھک محنت کرتا ہے ۔ اور ناکامیوں سے کبھی ہار نہیں مانتا ۔ ہنستے مسکراتے دنیا کو ہنساتے زندگی کی جنگ میں مصروف رہتا ہے ۔ ابن صفی اپنے قاری کو نہ صرف زندگی کے گوناگوں رنگ و ہنگامے دکھاتا ہے بلکہ ساتھ ہی معلومات کی ترسیل کرتے علم کی شمع بھی جلائے رکھتا ہے ۔
ابن صفی کی تخلیق کردہ کسی بھی کردار کی شخصیت کو مختصر بیان کرنا اک مشکل امر ہے ۔ ہر کردار عام انسان کی مانند پر پیچ پہلو در پہلو خواہشات نفسیات پر مشتمل اک گورکھ دھندا ہے ۔ اور بہر صورت یہ اعتراف کرتے دکھائی دیتا ہے کہ " کی جاناں میں کون "
عمران اک ایسا کردار جو کہ دو انتہاؤں میں پستے ہوئے ہوش سنبھالتا ہے ۔ اک طرف مذہب کی پاسداری اور دوسری جانب مشن سکول کی تعلیم ۔ تضاد میں الجھتے دوہری زندگی کا عادی عمران کا کردار ہمارے معاشرے میں موجود دوہری تضاد کی حامل زندگی پر اک گہرا طنز ۔۔۔۔۔۔۔
کسی اک رخ چلتے ابن صفی کی سوچ کو بیان کرنا ناممکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حق مغفرت فرمائے عجب آزاد مرد تھا ۔۔۔۔۔ آمین
متفق + دوستانہ کی ریٹنگ بھی شامل فرما لیجئے:)

بہت شاندار:)
 
ابن صفی کے ناولوں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں کہ جن کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ کہیں غلطی سے وہ مروجہ ادب کے میدان میں باضابطہ قدم رکھ دیتے تو بڑے بڑوں کی چھٹی ہوجاتی اور اس لحاظ سے چار حرف لکھ کر اہل کمال ہوجانے والوں کو ابن صفی کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انہوں نے ان کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا:
(1)
اگر خود غرضی اور جاہ پرستی سے منہ موڑ لیا جائے، ایک نئے انداز کی سرمایہ داری کی بنیاد ڈالنے کے بجائے خلوص نیت سے وہی کیا جو کہا جاتا رہا ہے تو عوام کی جھلاہٹ رفع ہوجائے گی۔ ضروت ہے کہ انہیں قناعت کا سبق پڑھانے کی بجائے ان کی خودی کو ابھارا جائے جیسا کہ بعض دوسرے ملکوں میں ہوا ہے۔ اللہ کبھی اس پر برہم نہیں ہوسکتا کہ کوئی قوم اپنے حالات کو مدنظر رکھ کر اپنے وسائل کی تقسیم کا مناسب انتظام کرلے۔
(2)
ان کا طرز حکومت جمہوری کہلاتا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مغز چند آدمیوں کے حصے میں آئے اور ہڈیاں عوام کے سامنے ڈال دی جائیں۔ یہ اپنے مسائل طاقت ہی سے حل کرتے ہیں مگر اسے اشتراک باہمی کا نام دیتے ہیں۔ اس کے حاکم خود کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں۔ عوام ہی انہیں حکومت کے لیے منتخب کرتے ہیں لیکن یہ ان کی مالی قوت ہی ہوتی ہے جو انہیں اقتدار کی کرسی تک پہنچاتی ہے لیکن وہ اسے عوام کی قوت اور رائے عامہ کہتے ہیں۔ حالانکہ رائے عامہ مالی قوت ہی سے خریدی جاتی ہے۔ انہٰیں منتخب ہونے کے لیے اپنے مخالفوں کے خلاف بڑے بڑے محاذ قائم کرنے پڑتے ہیں۔ ایک خطرناک جنگ شروع ہوتی ہے اور اس جنگ کو رائے عامہ ہموار کرنا کہا جاتا ہے۔ اس میں بھی طاقت ہی کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ آخر ایک آدمی مخالفوں کو کچلتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔
(3)
ہماری زمین کے سینے میں کیا نہیں ہے مگر ہم مفلس ہیں۔۔۔۔کاہل ہیں۔۔۔۔۔ہمیں باتیں بنانی آتی ہیں۔ ہم تقریر کرسکتے ہیں، ایک دوسرے پر اپنی ذہنی برتری کا رعب ڈال سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں ضائع کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم سے تعمیری کام نہیں ہوسکتے۔
(4)
میں جانتا ہوں کہ حکومتوں سے سرزد ہونے والے جرائم، جرائم نہیں حکمت عملی کہلاتے ہیں۔ جرم تو صرف وہ ہے جو انفرادی حیثیت سے کیا جائے۔
(5)
تربیت ضروری چیز ہے، یہ کیا کہ ایک معمولی کلرک کو کلرکی کا امتحان دینا پڑے۔ ایک پولیس کانسٹیبل، رنگروٹی کا دور گزارے بغیر کام سے نہ لگایا جائے لیکن ترکاریوں کے آڑھتی، بے مروت جاگیردار اور گاؤدی قسم کے تاجر براہ راست اسمبلیوں میں جابیٹھیں اور قانون سازی فرمانے لگیں اور ان ہی میں سے کچھ کابینہ کے ارکان بن جائیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نچلی سطح پر امتحانات اور ٹریننگ کا چکر چلتا رہے اور اوپر جس کا دل چاہے پہنچ جائے۔ بس جیب بھاری ہونی چاہیے، نہ کوئی امتحان اور نہ کوئی ٹریننگ۔
ربط

http://www.dunyapakistan.com/59902/جاسوسی-ادب-کے-بے-تاج-بادشاہ-ابن-صفی-کے/
 
ابن صفی کی مزاح نگاری کے بارے ان کے ناولوں سے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
’’یہ کیا ہو رہا ہے …..؟‘‘ عمران دہاڑا۔
’’سالا چڑاتا ہے مجھے …..!‘‘
بندر اُچھل کر عمران کی گود میں جا چڑھا۔
’’کیا چڑاتا ہے …..؟‘‘
’’مرچا دکھاتا ہے ….. اور باتھ روم کی طرف اشارہ کرتا ہے!‘‘
’’ہائیں ….!‘‘ عمران نے کہا اور کسی سوچ میں پڑگیا۔ پھر بندر کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔ ’’فلسفی بھی معلوم ہوتا ہے…… تو سمجھا اس اشارے کا مطلب……؟‘‘
’’کیسا اشارہ…..؟‘‘
’’یہی مرچ اور باتھ روم والا اشارہ!‘‘
’’میں کیا سمجھوں!‘‘ سلیمان کاٹ کھانے والے لہجے میں بولا۔
’’اس کا مطلب ہے کہ مرچ ہی کی وجہ سے تم لوگوں کو ٹھنڈے پانی کی ضرورت پیش آتی ہے ورنہ تم لوگ بھی کاغذ ہی استعمال کرتے ہوتے ….!‘‘
(شوگر بینک، ص: ۴۳-۴۲)
’’اوہ!‘‘ یک بیک ظفرو چونک کر بولا۔ ’’تم مجھے کہاں لے جارہے ہو؟‘‘
’’رانا پیلیس!‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’تمہیں چائے پلا کر دو چار غزلیں سناؤں گا۔ پچھلی رات بھی ایک تازہ غزل ہوئی ہے۔ پیٹ میں درد ہورہا ہے جب تک کوئی سنے گا نہیں، بدہضمی میں مبتلا رہوں گا۔ آج کل سامعین کہاں ملتے ہیں مجبوراً ریوالور کے زور پر مہیا کرتا ہوں، غزل تو الگ رہی تمہیں دوہے بھی سننے پڑیں گے!‘‘ (زہریلی تصویر، ص: ۲۳۵)
’’مگر کتابوں کو سونگھ کر تو ان کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ مطالعے کے لیے وقت چاہیے اور میں آج کل عدیم الفرصت ہوں۔‘‘
’’ہمارے ہاں تو کتابوں کو ترازو میں تول کر سال کی بہترین کتابیں منتخب کی جاتی ہیں اور ان پر انعامات دیئے جاتے ہیں۔ عموماً سب سے زیادہ ضخیم کتاب کا مصنف انعام پاتا ہے۔ اگر کوئی اﷲ کا بندہ اعتراض کر بیٹھے تو کہہ دیا جاتا ہے۔ اماں اتنی موٹی کتاب لکھ دی ہے، بے چارے نے، کہیں نہ کہیں تو کوئی قابل انعام بات قلم سے نکل ہی گئی ہوگی۔ آپ اس ترقی کے دور میں مطالعہ لیے پھرتے ہیں ….. لاحول ولا قوۃ……‘‘ (بلی چیختی ہے، ص: ۲۲۸)
’’گوڈون کی پولیٹیکل جسٹس پڑھی ہے آپ نے؟‘‘
’’پڑھی ہے …..‘‘ لڑکی برا سا منہ بنا کر بولی …… ’’لیکن گوڈون بھی مخلص نہیں تھا۔ اگر وہ عورت اور مرد کے تعلقات پر کسی قسم کی پابندی کا قائل نہیں تھا تو اس نے شیلی پر دعویٰ کیوں دائر کیا تھا۔ اگر وہ مخلص ہوتا تو شیلی سے اس لیے ناراض نہ ہوجاتا کہ وہ اس کی لڑکی میری گوڈون کو بھگا لے گیا تھا …..‘‘
’’ٹھیک کہتی ہیں آپ…….‘‘ حمید سر ہلا کر بولا۔ …. میں آپ سے متفق ہوں۔‘‘ ’’گوڈون کا یہ کارنامہ ……..‘‘ لڑکی نے کہا …..’’اس وقت کا ہے جب وہ باپ نہیں بنا تھا۔ پولیٹیکل جسٹس جنسی جھلاہٹ کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ اس میں خلوص نہیں…..‘‘ (مونچھ مونڈنے والی، ص:۹۶-۹۵)
’’اچھا بوجھیے تو کیا ہے؟—–‘‘ عمران نے ایک ہاتھ اپنی پیشانی پر رسید کر کے دوسرا گال پر رسید کیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’اتنی معمولی سی پہیلی نہیں بوجھ سکتیں؟‘‘
’’یہ پہیلی ہے کوئی! …….!‘‘ وہ ہنس کر بولی …….’’ایک ہاتھ پیشانی پر مارا اور دوسرا گال پر۔‘‘
’’سمبولک پوئٹری کی طرح۔‘‘
’’خدا کی پناہ۔ تو لٹریچر میں بھی دخل ہے، جناب کو!‘‘
’’میلارمے کو پڑھ پڑھ کر اس حال کو پہنچا ہوں۔ اردو میں میرا جی سے سرِ جوے بار ملاقات ہوئی تھی۔‘‘
’’میرا جی آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘
’’عورتوں کی سمجھ میں نہ آئے تو بہتر ہے ورنہ پھنکنیاں اور دست پناہ سنبھال کر دوڑ پڑیں گی، اس کی قبر کی طرف۔‘‘
(گیت اور خون، ص: ۵۱-۵۰)​
’’یار پتہ نہیں کیوں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے تم سب کسی ایک ہی استاد سے غزل کہلواتے ہو ….. مشاعروں میں سنتا ہوں ….رسالوں میں پڑھتا ہوں …… سبھوں کا ایک ہی رنگ نظر آتا ہے۔ خدا بھلا کرے فیض صاحب کا کہ انھوں نے اپنے بعد پھر کوئی اوریجنل شاعر پیدا ہی نہ ہونے دیا۔ صرف دو تین اس بھیڑ سے الگ معلوم ہوتے ہیں جیسے جمیل الدین عالی اور جعفر طاہر وغیرہ …. آگے رہے اﷲ کا نام ……!‘‘​
’’اچھا …..!‘‘ شاعر صاحب نے جھلا کر کہا۔ ’’سردار جعفری کے متعلق کیا خیال ہے!‘‘​
’’پتھر توڑتے ہیں…….!‘‘ (ڈیڑھ متوالے، ص: ۱۸۷)​
’’کنفیوشس نے کہا تھا کہ جب دو عورتیں بیک وقت تمھیں دلچسپ سمجھنے لگیں تو کسی بوڑھی عورت کو تلاش کرو۔ جو ان کے بیان کی تصدیق کرسکے۔‘‘ (الفانسے، ص: ۱۳۶)​
’’لیکن تم اپنے باس کو کچھ نہیں بتاؤ گی …..اچھی لڑکی….!‘‘​
’’نہیں بتاؤں گی ….مگر…..!‘‘​
’’کچھ نہیں …. ایسا کر کے تم اپنے ملک و قوم کے لیے بھی ایک بڑا کارنامہ انجام دو گی …. عورتیں پیٹ کی ہلکی ہوتی ہیں نا …..اس لیے اتنی سی بات کو بھی کارنامہ ہی کہنا پڑتا ہے!‘‘ (ڈیڑھ متوالے، ص: ۲۲۹)​
۰۰۰تیسرا سائنٹفک ثبوت یہ ہے کہ مرد ایک اور ایک دو نہیں ہوسکتا مگر عورت ایک اور ایک تین ہوجاتی ہے ….. چار ہوجاتی ہیں …… پانچ ہوجاتی ہیں اور علی ہذالقیاس اس میں تو ایک درجن اور ڈیڑھ درجن ہوجانے والی عورتوں کو انعامات ملتے ہیں۔ خطابات ملتے ہیں۔ اس لیے جناب …. عورت مرد سے برتر ہے۔‘‘ (آہنی دروازہ، ص: ۱۵۰)​
برتر وہی ہے جو بے وقوف ہو۔ جتنا بے وقوف اتنا ہی برتر۔ پہلے مرد عورت پر حکومت کرتا تھا …… طاقت سے …… اب بے وقوف یعنی برتر بنا کر حکومت کرتا ہے۔ برتر بنا کر حکومت کرنے میں اسے دہرا فائدہ ہے یعنی عورت پر دہری ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں۔ وہ انھیں خود سے برتر بنا کر گھروں کی چار دیواریوں سے نکال لاتا ہے انھیں اپنے دوش بدوش کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔ رہ گئے چار دیواریوں والے فرائض، تو عورت انھیں عادتاً انجام دیتی ہے۔ یعنی مرد عورتوں کے دوش بدوش بچوں کو دودھ نہیں پلاتا۔ عورتوں کے دوش بدوش گھر کی صفائی نہیں کرتا۔ بچوں کے کپڑے نہیں دھوتا۔ اس وقت وہ پلنگ پر لیٹ کر ٹانگوں کو سمیٹ کر تاش کھیلنے لگتا ہے۔ سبحان اﷲ ….. عورت اسی لیے مرد سے برتر ہے کہ اس نے دہری ذمے داریاں سمیٹ رکھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مردعوں کے مقابلے میں عورتیں نہ تو گنجی ہوتی ہیں اور نہ توندیں رکھتی ہیں۔‘‘ (آہنی دروازہ، ص: ۱۵۱-۱۵۰)​
 

شکیب

محفلین
کچھ اقتباسات میں نے بھی اسکرین شاٹ کی شکل میں لے رکھے ہیں۔ کوشش کرتا ہوں اشتراک کرنے کی۔ فی الحال کچھ سوال
*آپ عمران پسند ہیں یا فریدی پسند ہیں؟
1۔ کون سے ناول میں بلیک زیرو مر جاتا ہے؟
2۔کس ناول یا کن ناولز میں صرف کرائم رپورٹر انور کا کردار ہے؟
3۔ ابنِ صفی کی عمران سیریز کے مقابلے میں مظہر کلیم کی عمران سیریز پڑھ کر آپ کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟
4۔ عمران اور فریدی کے حلیے پر روشنی ڈالیے(جو مختلف ناولز میں چیدہ چیدہ درج ہیں)
5۔ کس ناول میں کوئی بھی مین کردار عبادت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے؟
6۔ سنگ ہی کے کردار کی کچھ خصوصیات بتائیے۔
 

فلک شیر

محفلین
استاد نرالے محبوب عالم شروع ہو جائیں ، تو عمران کے سوا کون روک سکتا ہے۔بالخصوص جب فارسا کا رنگ غالب ہو، پھر تو خدا کی پناہ
شدم شدم تنی تنی، عدم عدم گنی گنی
شاذے کرتم، آوے ہر دم بنی بنی
 

فہیم

لائبریرین
*آپ عمران پسند ہیں یا فریدی پسند ہیں؟
دونوں کرداروں کی اپنی اپنی ایک بات ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ فریدی کا کردار بالکل سنجیدہ نوعیت کا ہے کہ کسی ناول میں صرف فریدی ہو تو شاید پڑھنے میں اتنا مزہ نہ آئے۔ لیکن عمران کا کردار ایسا ہے کہ پورا ناول ہی صرف اسی کردار کے گرد ہی گھومتا نظر آتا ہے۔

1۔ کون سے ناول میں بلیک زیرو مر جاتا ہے؟
درندوں کی بستی
2۔کس ناول یا کن ناولز میں صرف کرائم رپورٹر انور کا کردار ہے؟
ہیرے کی کان
تجوری کا گیت
آتشی پرندہ
خونی پتھر
3۔ ابنِ صفی کی عمران سیریز کے مقابلے میں مظہر کلیم کی عمران سیریز پڑھ کر آپ کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟
بور معلوم ہوتے ہیں۔
4۔ عمران اور فریدی کے حلیے پر روشنی ڈالیے(جو مختلف ناولز میں چیدہ چیدہ درج ہیں)
اس کا جواب لکھ سکتا ہوں لیکن ابھی مصروفیت کی وجہ سے پینڈنگ:)
5۔ کس ناول میں کوئی بھی مین کردار عبادت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے؟
صحرائی دیوانہ
فریدی اور حمید فجر کی نماز پڑھتے ہیں
6۔ سنگ ہی کے کردار کی کچھ خصوصیات بتائیے۔
یہ بھی پینڈنگ
 
Top