ابن انشاء

عاطف بٹ

محفلین
نیلم ، خدارا کبھی تو حکایت پوری سنا دیا کریں۔ ہر بار مجھے ہی پوری کرنی پڑتی ہے۔ آخری حصہ یہ رہا (روحِ انشاء سے معذرت کے ساتھ):

باپ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں نے سوچا کہ کفن دفن پر بہت خرچہ اٹھے گا، لہٰذا بڈھے کو انہی لکڑیوں پر رکھ کر جلا دیتے ہیں۔ ایک دو نے مخالفت تو کی مگر جمہوریت کے آگے بھلا کس کی چل سکتی ہے، سو مسلمان ہونے کے باوجود بڈھے کو نذرِ آتش اور اس کی استھیوں (باقیاتِ پدرِ بزرگوار) کو نذرِ دریائے چناب کیا گیا۔ گھر واپس آ کر بیٹوں نے مکان کا نچلا حصہ کرایے پر دے دیا اور خود مل کر اوپر والی منزل میں رہنے لگے۔ خرچہ تو پہلے ہی باپ کی آخری رسومات پر کم ہوا تھا ان کا، اب دن بھر چھت پر چڑھ کر بیٹھ رہنے کی وجہ سے بالا نشین بھی کہلانے لگے اور یوں ان مردانِ پدر کُش کے باعث ’کم خرچ، بالا نشین‘ کا محاورہ معرضِ وجود میں آیا۔
 
سبحان اللہ، کیا پسند ہے! جب آپ کی شادی ہو تو مجھے بتائیے گا، میں آپ کو ایک کلو بچھو تحفے کے طور پر بھیجوں گا! :p
بھائی صاحب اللللہ خوش رکھے اپ کو
یہ سارے بچھو اپنی سگی بہنوں کی شادیوں کے لئے بچا رکھیں ورنہ ان کی رخصتی پر کیا دیں گے :shameonyou:
 

عاطف بٹ

محفلین
بھائی صاحب اللللہ خوش رکھے اپ کو
یہ سارے بچھو اپنی سگی بہنوں کی شادیوں کے لئے بچا رکھیں ورنہ ان کی رخصتی پر کیا دیں گے :shameonyou:
گیلانی صاحبہ، میں نے وہ بات مزاح کے طور پر لکھی تھی مگر آپ کے جواب سے پتا چلا کہ آپ نے اسے کس حد تک سنجیدگی سے لیا۔ میری جانب سے بہت معذرت۔
 
گیلانی صاحبہ، میں نے وہ بات مزاح کے طور پر لکھی تھی مگر آپ کے جواب سے پتا چلا کہ آپ نے اسے کس حد تک سنجیدگی سے لیا۔ میری جانب سے بہت معذرت۔
تو ہم نے کون سا سنجیدگی کا ٹیگ لگا کے لکھی تھی۔۔۔ مگر آپ کے جواب سے پتا چلا کہ آپ نے اسے کس حد تک سنجیدگی سے لیا۔ میری جانب سے بہت معذرت۔ :heehee:
 

نیلم

محفلین
واہ نیلم ! خوب لطف آیا پڑھ کر۔ ابن انشاء کا انداز شاعری اور نثر دونوں میں منفرد ہے۔ ابن انشاءکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بچھو کا ڈسا روتا سانپ کا کاٹا سوتا جبکہ ابن انشاء کا کاٹا سوتے میں بھی مسکراتا ہے۔ اب یہاں بچھو یوں ہی آ گیا ہے برسبیل تذکرہ :)
؎
بہت شکریہ
بچھو،،،،یہاں بھی آگیا:D
 

نیلم

محفلین
نیلم ، خدارا کبھی تو حکایت پوری سنا دیا کریں۔ ہر بار مجھے ہی پوری کرنی پڑتی ہے۔ آخری حصہ یہ رہا (روحِ انشاء سے معذرت کے ساتھ):

باپ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں نے سوچا کہ کفن دفن پر بہت خرچہ اٹھے گا، لہٰذا بڈھے کو انہی لکڑیوں پر رکھ کر جلا دیتے ہیں۔ ایک دو نے مخالفت تو کی مگر جمہوریت کے آگے بھلا کس کی چل سکتی ہے، سو مسلمان ہونے کے باوجود بڈھے کو نذرِ آتش اور اس کی استھیوں (باقیاتِ پدرِ بزرگوار) کو نذرِ دریائے چناب کیا گیا۔ گھر واپس آ کر بیٹوں نے مکان کا نچلا حصہ کرایے پر دے دیا اور خود مل کر اوپر والی منزل میں رہنے لگے۔ خرچہ تو پہلے ہی باپ کی آخری رسومات پر کم ہوا تھا ان کا، اب دن بھر چھت پر چڑھ کر بیٹھ رہنے کی وجہ سے بالا نشین بھی کہلانے لگے اور یوں ان مردانِ پدر کُش کے باعث ’کم خرچ، بالا نشین‘ کا محاورہ معرضِ وجود میں آیا۔

یہ کام آپ زیادہ اچھا کرلیتےہیں:D
 
Top