قرۃالعین اعوان
لائبریرین
دیکھا ہے چڑیا گھر میںاس حساب سے تو آپ شیر کے بارے پوچھنا چاہیئے تھا کہ شیر کبھی نہیں دیکھا
دیکھا ہے چڑیا گھر میںاس حساب سے تو آپ شیر کے بارے پوچھنا چاہیئے تھا کہ شیر کبھی نہیں دیکھا
سبحان اللہ، کیا پسند ہے! جب آپ کی شادی ہو تو مجھے بتائیے گا، میں آپ کو ایک کلو بچھو تحفے کے طور پر بھیجوں گا!اصل میں پسند ہیں ہمیں بہت
اگر برج کا نشان چڑیا گھر میں ہے تو سوچنے کی بات ہے کہ ۔۔۔دیکھا ہے چڑیا گھر میں
مائنڈ کر لیا تو پھر کیا ہوگااگر برج کا نشان چڑیا گھر میں ہے تو سوچنے کی بات ہے کہ ۔۔۔
مذاقاً بات کر دی ہے۔ پلیز مائند نہ کیجئے گا
بھائی صاحب اللللہ خوش رکھے اپ کوسبحان اللہ، کیا پسند ہے! جب آپ کی شادی ہو تو مجھے بتائیے گا، میں آپ کو ایک کلو بچھو تحفے کے طور پر بھیجوں گا!
تو پھر یہی ہوگا کہ پتہ نہیں کیا ہوگامائنڈ کر لیا تو پھر کیا ہوگا
پھر آپ نے کیوں کہا کہ مائنڈ مت کیجئے گاتو پھر یہی ہوگا کہ پتہ نہیں کیا ہوگا
پتہ تھا کہ مائینڈ کرنا بے کار جائے گا اس لئے بے کار کے کام سے منع کر دیا پہلے ہیپھر آپ نے کیوں کہا کہ مائنڈ مت کیجئے گا
آپ کو کیسے پتا چلا کہ بے کار جائے گا؟پتہ تھا کہ مائینڈ کرنا بے کار جائے گا اس لئے بے کار کے کام سے منع کر دیا پہلے ہی
گیلانی صاحبہ، میں نے وہ بات مزاح کے طور پر لکھی تھی مگر آپ کے جواب سے پتا چلا کہ آپ نے اسے کس حد تک سنجیدگی سے لیا۔ میری جانب سے بہت معذرت۔بھائی صاحب اللللہ خوش رکھے اپ کو
یہ سارے بچھو اپنی سگی بہنوں کی شادیوں کے لئے بچا رکھیں ورنہ ان کی رخصتی پر کیا دیں گے
اس کا جواب سمجھ نہیں آ رہاآپ کو کیسے پتا چلا کہ بے کار جائے گا؟
کوئی بات نہیں بھیا!اس کا جواب سمجھ نہیں آ رہا
بہت شکریہکوئی بات نہیں بھیا!
تو ہم نے کون سا سنجیدگی کا ٹیگ لگا کے لکھی تھی۔۔۔ مگر آپ کے جواب سے پتا چلا کہ آپ نے اسے کس حد تک سنجیدگی سے لیا۔ میری جانب سے بہت معذرت۔گیلانی صاحبہ، میں نے وہ بات مزاح کے طور پر لکھی تھی مگر آپ کے جواب سے پتا چلا کہ آپ نے اسے کس حد تک سنجیدگی سے لیا۔ میری جانب سے بہت معذرت۔
بہت شکریہواہ نیلم ! خوب لطف آیا پڑھ کر۔ ابن انشاء کا انداز شاعری اور نثر دونوں میں منفرد ہے۔ ابن انشاءکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بچھو کا ڈسا روتا سانپ کا کاٹا سوتا جبکہ ابن انشاء کا کاٹا سوتے میں بھی مسکراتا ہے۔ اب یہاں بچھو یوں ہی آ گیا ہے برسبیل تذکرہ
؎
بہت شکریہ
بہت شکریہ
نیلم ، خدارا کبھی تو حکایت پوری سنا دیا کریں۔ ہر بار مجھے ہی پوری کرنی پڑتی ہے۔ آخری حصہ یہ رہا (روحِ انشاء سے معذرت کے ساتھ):
باپ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں نے سوچا کہ کفن دفن پر بہت خرچہ اٹھے گا، لہٰذا بڈھے کو انہی لکڑیوں پر رکھ کر جلا دیتے ہیں۔ ایک دو نے مخالفت تو کی مگر جمہوریت کے آگے بھلا کس کی چل سکتی ہے، سو مسلمان ہونے کے باوجود بڈھے کو نذرِ آتش اور اس کی استھیوں (باقیاتِ پدرِ بزرگوار) کو نذرِ دریائے چناب کیا گیا۔ گھر واپس آ کر بیٹوں نے مکان کا نچلا حصہ کرایے پر دے دیا اور خود مل کر اوپر والی منزل میں رہنے لگے۔ خرچہ تو پہلے ہی باپ کی آخری رسومات پر کم ہوا تھا ان کا، اب دن بھر چھت پر چڑھ کر بیٹھ رہنے کی وجہ سے بالا نشین بھی کہلانے لگے اور یوں ان مردانِ پدر کُش کے باعث ’کم خرچ، بالا نشین‘ کا محاورہ معرضِ وجود میں آیا۔