ام نور العين
معطل
ابوالکلام آزاد
از شورش کاشمیری
۔۔۔ سلطان محمود ثانی نے دولت عثمانیہ میں جدید علوم وفنون کا آغاز کیا ، دارالخلافہ میں پریس لگایا ۔ کتب مفید کی طباعت شروع کرائی اور بعض دوسری اہم اصلاحات کے علاوہ عثمانی حرم سراؤں سے ہزار ہا لونڈیوں کو آزاد کرایا ۔ تب ہر سال سلطانی محل میں پندرہ سو کنیزیں خرید کے داخل کی جاتی تھیں ۔ سلطان محمود ن جہاں تہاں غلاموں کی منڈیا تھیں ان کو بند کرا دیا ۔ ادھر مکہ معظمہ میں ایک بڑی منڈی تھی ۔ عبدالمطلب شریف مکہ نے اس حکم کو ذرا برابر وقعت نہ دی ۔ منڈی قائم رکھی ۔ گورنر ترکی شریف کی اس ہٹ دھرمی پر بے بس تھا ۔ سلطان عبدالحمید تخت نشین ہوا تو اس نے سلطان محمود کی اصلاحات کو جاری رکھا اور مکہ سے منڈی ختم کرنے کا عہد کر لیا ۔ حامد پاشا کو گورنر بنا کر بھیجا ۔ اس نے مکہ پہنچ کر شریف کو سلطان کے احکام سے آگاہ کیا ۔ شریف نے بظاہر کوئی مخالفت نہ کی لیکن کچھ دنوں بعد مکہ و طائف کے بدوؤں سے بغاوت کرا دی ، اعلان کیا کہ سلطان نصرانی ہو گیا ہے اور اسلام کو مٹانا چاہتا ہے ۔ بغاوت فرو کر دی گئی لیکن شریف کی گرفتاری ایک پیچیدہ مسئلہ تھا ۔ کچھ عرصہ بعد شریف کو ایک جنگی جہاز دکھانے کے بہانے جدہ پہنچایا گیا ۔ وہ جہاز میں بیٹھا تو معلوم ہوا جہاز ساحل سے ہٹ رہا ہے اور وہ قیدی ہے ۔
عبدالمطلب کے بعد اس کا بھتیجا غالب ’شریف‘ مقرر ہوا ۔ وہ بھی شبہات میں آ گیا ۔ مولانا خیرالدین سے اس کے تعلقات تھے ۔ سلطان کو پتہ چلا تو بعض شکوک و شبہات کی تصدیق و تردید میں ان سے مدد لینا چاہی ، المختصر مولانا خیرالدین کی مساعی سے عبدالمطلب کی نظربندی موقوف ہو گئی ۔۔۔۔
مولانا خیرالدین (آزاد کے والد) نے ترکی میں رہ کر ترکی سیکھی ، پھر اس کی صرف ونحو عربی میں لکھی عربی فارسی اور ترکی کا ایک لغت تیار کرنا چاہا لیکن قاف تک پہنچ کر موقوف ہو گیا اور قونیہ چلے گئے وہاں سال بھر رہے پھر شام وغیرہ کا سفر کیا ، وہاں سے مصر آ گئے ۔ دو سال قیام کیا پھر مکہ گئے ، مکہ سے کچھ عرصے کے لیے بمبئی آئے پھر عراق کا سفر کیا ، وہاں چھ سات ماہ رہے ، اس زمانے میں شیخ عبدالرحمن نقیب الاشراف تھے ان کے مہمان ہوئے ان سے طریقہ قادریہ کی اجازت لی اور انہوں نے ان سے طریقہ نقشبندیہ کی ۔ بغداد سے پھر بمبئی لوٹ گئے ۔ کچھ دیر قیام کیا اور مکہ واپس آ گئے ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب شہید سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید کی جماعت نے جہاد فی القرآن کے حکم و عمل سے برطانوی گورنمنٹ کے لیے خوف پیدا کر رکھا تھا اور وہ اس کے پیروؤں کو ختم کرنا چاہتی تھی ۔ انگریزوں نے مسلمانوں کی وحدت میں دراڑ لگوانے کے لیے مرزا غلام احمد کو پیدا کیا ۔ مولانا احمد رضا بریلوی عقائد کی ایک نئی اور مختلف دنیا لے کر سامنے آئے ۔ شیعہ حضرات نے سواد اعظم سے ہمیشہ کی طرح علیحدہ روش اختیار کی ۔ غرض مسلمانوں میں قرّن و حدیث کے مسائل پر ہنگامہ برپا ہو گیا ۔ چکڑالوی فرقہ انہی ضرورتوں ہی کی پیداوار تھا ۔ علما کی وہ جماعت جس نے انگریزوں سے مڈبھیڑ جاری رکھی اور سرحد کے علاقے میں جماعت مجاہدین کا نام اختیار کیا ،انگریزوں نے انہیں وہابی کا نام دے کر مارنا اور مروانا شروع کیا ۔ جس شخص کو برطانوی حکومت نے وہابی گردانا اس کو گرفتار کیا ۔ مقدمہ چلایا اور کم سے کم کالے پانی کی سزا دی ۔ ورنہ پھانسی پر لٹکوا دیا ۔ اس طرح سے سینکڑوں علماء حوالہ داروگیر ہو گئے اور بے شمار متمول خاندان تباہ کر دئیے گئے ۔
جو لوگ اس ہلاکت اور بربادی سے کسی طرح بچ گئے وہ حجاز کو دارالامن سمجھ کر وہاں چلے گئے لیکن اس زمانے میں حجاز کے علما و عوام کو محمد بن عبدالوہاب اور ان کی جماعت سے سخت عناد وتعصب تھا ۔ سلطنت عثمانیہ نے بھی سیاسی مصلحتوں کے تابع انہیں معتوب و مغضوب گردان رکھا تھا ۔
مولانا خیرالدین نے ہندوستان کی اس وہابی جماعت کے خلاف شریف مکہ اور قسطنطینیہ کے عوام کو تیار کیا ، مولانا آزاد کے الفاظ میں فتنہ اٹھایا ، نتیجتۃ اس جماعت کے اکتیس آدمی گرفتار کر لیے گئے ، لیکن تین کے سو اسب نے تقیہ کیا اور رہا ہو گئے ۔ تین کو فی کس انتالیس کوڑے لگانے کی سزا دی گئی ۔
ان گرفتار شدگان کے عقائد کے متعلق جو سوالنامہ مرتب کیا گیا وہ مولانا خیر الدین کا تیار کردہ تھا ۔ اس سلسلے کا عبرت انگیز پہلو یہ ہے کہ ان لوگوں کے اعزا نے ہندوستان سے جدہ آ کر برٹش قونصل سے مدد مانگی کہ ان کی رعایا پر یہ عذاب نازل ہو رہا ہے ، اس کی مداخلت سے وہ آدمی رہا کئے گئے لیکن بمبئی پہنچے تو ان کے مخالفوں نے طوفان کھڑا کر دیا کہ حرم سے مخذول و مردود ہو کر واپس آئے ہیں ، گورنمنٹ کو ان کی گرفتاری کے لیے مجبور کیا گیا لیکن کسی نہ کسی طرح وہ بچ گئے۔ قاضی سلمان دوستوں کی مدد سے بغداد چلے گئے ۔ قاضی محمد مراد کلکتہ پہنچتے ہی گرفتار کر لیے گئے ان پر وہابیت کی پاداش میں مقدمہ چلا ۔ انہیں جیل خانہ میں اتنی ازیت دی گئی کہ اس کے صدمے سے اندر ہی انتقال کر گئے ۔
غرض مولانا خیر الدین نے وہابیوں کے لیے مکہ معظمہ میں رہنا نا ممکن کر دیا ۔ ایک عجیب اتفاق یہ تھا کہ حجاز کی حکومت اور ہندوستان کی برطانوی حکومت وہابیوں کے معاملے میں متحدالعمل تھیں ۔ اس زمانے میں مولانا خیرالدین نے وہابیت کے رد میں دس جلدوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی لیکن اس کی دو جلدیں ہی چھپیں ۔ سلطان ترکی نے خیرالدین کو تمغہ حمیدی دیا ۔