سید رافع
محفلین
مولانا ابوالکلام آزاد 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین افغانی سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ابو الکلام نے جدوجہد آزادی پر ایک کتاب انڈیا ونس فریڈم لکھی۔ اس کتاب میں مسٹر جناح اور مسلم لیگ کی سیاست پر مولانا نے ایک سیاسی مدبر کی حیثیت سے جابجا تبصرے کیے ہیں جو دلچسپی کے لیے پیش کیے جارہے ہیں۔
مولانا شملہ کانفرنس کی ناکامی مسٹر جناح کی فرقہ وارنہ مطالبے پر ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ۔۔۔
مولانا مذید تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
مولانا فرماتے ہیں کہ
عام انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا نشاندہی کرتے ہیں کہ
اشتراک اور تعاون پر مسٹر جناح کی ضرب کاری کا ذکر یوں کرتے ہیں
جاری ہے۔۔۔
مولانا شملہ کانفرنس کی ناکامی مسٹر جناح کی فرقہ وارنہ مطالبے پر ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ۔۔۔
کونسل کی رکنیت کے بارے میں اختلافات پیدا ہوئے۔ مسٹر جناح کا کہنا تھا کہ کانگریس تمام ہندو ممبروں کو نامزد کر سکتی ہے اور لیگ تمام مسلمان ممبروں کو نامزد کرے گی۔ میں (مولانا ٓزاد) نے کہا کہ کانگریس کسی ایسے مطالبے کو منظور نہیں کر سکتی۔ تمام سیاسی معاملوں میں وہ ہندو مسلمان کے امتیاز کو صحیح نہیں تسلیم کر سکتی تھی۔ وہ کسی حالت میں اس پر راضی نہیں ہو سکتی کہ اسے صرف ہندووں کی پارٹی قرار دیا جائے۔
مولانا مذید تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
دس برس بعد بھی جب میں ان واقعات پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے عجیب صورت حال پر حیرت ہوتی ہے جو مسلم لیگ کے رویے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ مسٹر جناح کو یہ بات بہت بری لگی کہ ایگزیکٹیو کونسل میں دو مسلمان ہوں جو ان کے نامزد کردہ نہ ہوں۔ اس لیے اگر (شملہ) کانفرنس مسٹر جناح کی مخالفت کی وجہ سے ناکام نہ ہوجاتی تو اسکا نتیجہ یہ ہوتا کہ کونسل کے چودہ ممبروں میں سے سات مسلمان ہوتے، اگرچہ پوری آبادی کے وہ پچیس فیصد تھے۔ یہ کانگریس کی فیاضی کا ثبوت ہے، اور اس سے مسلم لیگ کی حماقت پر ایسی روشنی پڑتی ہے جس میں وہ خاصی بھیانک معلوم ہوتی ہے۔ مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کی محافظ سمجھی جاتی تھی مگر اسی کی مخالفت کے سبب مسلمان غیر تقسیم شدہ ہندوستان کی حکومت میں ایک معقوم حصہ حاصل کرنے سے محروم رہے۔ مسلم لیگ کی انتہا پسندی کا انجام یہ ہوا کہ (شملہ) کانفرنس ناکام قرار پا کر برخاست کر دی گئی۔
مولانا فرماتے ہیں کہ
ہم نے جس حد تک ممکن تھا مسٹر جناح کی خواہشوں کا لحاظ کیا، مگر ہم ان کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کر سکتے تھے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی واحد اور مختار نمائندہ جماعت مسلم لیگ ہے۔ جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں بھی لیگ وزارت نہیں بنا سکی ہے۔
عام انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا نشاندہی کرتے ہیں کہ
ان تینوں صوبوں ( یعنی بنگال، پنجاب اور سندھ) میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور مسلم لیگ نے مذہبی تعصب اور فرقہ وارانہ جذبات پیدا کرنے کے لیے پروپیگینڈا کیا تھا۔
اشتراک اور تعاون پر مسٹر جناح کی ضرب کاری کا ذکر یوں کرتے ہیں
میں (مولانا آزاد) نے یہ طے کر لیا تھا کہ وزارتیں بنانے کے معاملے میں ہمیں لیگ کے ساتھ فیاضی سے کام لینا چاہیے۔ مجھے معلوم تھا کہ کئی صوبوں اور خاص طور سے بہار، آسام اور پنجاب میں مسلم لیگی ممبر بہت خوشی سے شریک ہوئے۔ لیکن مسٹر جناح کی پالیسی تھی کہ انہیں کانگریس کے ساتھ اشتراک کرنے سے روکا جائے۔
جاری ہے۔۔۔