مولانا کا یہ تبصرہ میں شامل کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں مولانا سے صد فیصد متفق ہوں۔
مسلم لیگ نے پاکستان کی جو اسکیم تجویز کی ہے، اس پر میں نے پر پہلو سے غور کیا ہے۔ ایک ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے میں نے سوچا ہے کہ پورے ہندوستان کے مستقبل پر اس سے کیا اثر ہو گا۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے مستقبل پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔
اسکیم کے تمام پہلووں پر غور کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نہ صرف بحیثیت مجموعی پورے ہندوستان کے لیے بلکہ خاص طور پر مسلمانوں کے لیے بھی نقصان دہ ہوگی، اور دراصل جتنے مسئلے اس کے ذریعے حل ہوں گے، ان سے زیادہ نئے مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے۔
مجھے اس کا اعتراف ہے کہ پاکستان کا نام ہی میرے حلق سے نہیں اترتا، اس سے یہ خیال پیدا کیا جاتا ہے کہ دنیا کے کچھ حصے پاک اور کچھ ناپاک ہیں۔ پاک اور ناپاک علاقوں کی یہ تقسیم سراسر غیر اسلامی ہے بلکہ اسلام سے انحراف ہے۔ اسلام کسی ایسی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: خدا نے ساری زمیں کو میرے لیے مسجد بنایا ہے۔
اس کے علاوہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی اسکیم شکست خوردہ ذہنیت کی علامت ہے اور اسکا خیال اسی طرح پیدا ہوا ہے جیسے یہودیوں میں قومی وطن کا خیال۔ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ہندوستانی مسلمان، ہندوستان میں اپنی حیثیت قائم نہیں رکھ سکتے اور اس پر راضی ہیں کہ ایک کونے میں، جو ان کے لیے مخصوص کر دیا ہو، سمٹ کر بیٹھ جائیں۔
یہوودیوں کی اس آرزو سے ہمدردی کی جاسکتی ہے کہ ان کا ایک قومی وطن ہو کیونکہ وہ پوری دنیا میں منتشر ہیں اور کسی ایک علاقے میں بھی وہ حکومت کے انتظامات پر اثر نہیں ڈال سکتے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی حالت اس سے بالکل مختلف ہے۔ ان کی تعداد نو کروڑ سے اوپر ہے اور کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے وہ ہندوستانی زندگی کا اتنا اہم عنصر ہیں کہ حکومت کے انتظامات اور پالیسی پر فیصلہ کن حد تک اثر ڈال سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ قدرت نے اکو چند مخصوص علاقوں میں بڑی تعداد میں یکجا بھی کر دیا ہے اور اس طرح انہیں تقویت پہنچائی ہے۔
ان حالات میں پاکستان کے مطالبے میں کوئی جان نہیں رہتی، کم از کم میں ایک مسلمان کی حیثیت سے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے اس حق کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوں کہ پورے ہندوستان کو میدان عمل سمجھوں اور اسکی سیاسی اور معاشی زندگئ کی تشکیل میں شرکت کروں۔ میرے نزدیک بزدلی کی بات ہے کہ میں اپنی آبائی جائیداد سے دست بردار ہو جاوں اور اس کے ایک ٹکڑے پر قناعت کر لوں۔
جب کہ سب کو یہ معلوم ہے کہ مسٹر جناح کی پاکستان کی اسکیم دو قومی نظریے پر مبنی ہے۔ ان کا دعوی یہ ہےکہ ہندوستان میں بہت سی قومیں آباد ہیں، جن کے درمیان مذہب بنائے امتیاز ہے۔ ان میں جو دو بڑی قومیں ہیں یعنی ہندو اور مسلمان ان کی اس اعتبار سے کہ وہ دو الگ قومیں ہیں، دو الگ ریاستیں ہونی چاہیں۔ ڈاکٹر ایڈورڈ ٹامس نے ایک مرتبہ مسٹر جناح سے کہا کہ ہندو اور مسلمان ہندوستان کے ہزاروں شہروں، قصبوں اور گاوں میں مل جل کر رہتے ہیں تو مسٹر جناح نے جواب دیا کہ اس کا انکی جداگانہ قومیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مسٹر جناح کے نظریے کے مطابق چونکہ یہ دونوں قومیں ہر بستی، ہر گاوں اور ہر شہر میں ایک دوسرے سے ٹکراتی رہتی ہیں، اس وجہ اس وہ چاہتے ہیں کہ ان کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔