ابولکلام آزاد کی نظر میں مسٹرجناح بحیثیت ایک فرقہ پرست

سید رافع

محفلین
تو دوسری قوموں کا حصہ بن جائیں ہجرت کر کے۔ جیسے امریکا، برطانیہ، سنگاپور، ناروے وغیرہ۔ خود نہیں جا سکتے تو اولاد کو بھیج دیں
جو ہجرت کر کے گئے ہیں انکو بھی اپنی مسلم شناخت برقرار رکھنا دشوار ہے۔ اکثر کی اولادیں سکیولر سوچ کی ہو گئیں ہیں۔ خود بھی جابجا مصالحت کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ صرف جمعے کی نماز ہی مساجد کی کمی یا دوری کے باعث ایک مسئلہ بن جاتی ہے۔ عیدین تو نا پوچھیں کہ کیسے آفس میں ہی گزر جاتی ہے۔ رمضان کے روزے یوکے میں انیس گھنٹے تک پہنچ جاتے ہیں۔ بچوں کی پاکستان میں تربیت ہو جاتی ہے وہاں کرنی پڑتی ہے۔ بچے الگ بلکہ دوسرے شہروں میں ماں باپ کو چھوڑ کر منتقل ہو جاتے ہیں۔ عیسائیوں اور ملحدوں کے ساتھ رہ کر انکے اثرات خود آپ کی مسلم شخصیت کو مسلسل اثر انداز کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ فکری ہم آہنگی ہے۔
 
مولانا ابوالکلام آزاد 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین افغانی سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ابو الکلام نے جدوجہد آزادی پر ایک کتاب انڈیا ونس فریڈم لکھی۔ اس کتاب میں مسٹر جناح اور مسلم لیگ کی سیاست پر مولانا نے ایک سیاسی مدبر کی حیثیت سے جابجا تبصرے کیے ہیں جو دلچسپی کے لیے پیش کیے جارہے ہیں۔

مولانا شملہ کانفرنس کی ناکامی مسٹر جناح کی فرقہ وارنہ مطالبے پر ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ۔۔۔



مولانا مذید تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ



مولانا فرماتے ہیں کہ



عام انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا نشاندہی کرتے ہیں کہ



اشتراک اور تعاون پر مسٹر جناح کی ضرب کاری کا ذکر یوں کرتے ہیں



جاری ہے۔۔۔
تاریخی اعتبار سے عمران خان صاحب، بھٹو اور جناح صاحب کی سیاسی حکمتِ عملی اور سوچ کا زاویہ بالکل ایک ہے۔ اگرچہ ان کی سیاسی حکمتِ عملی کتنی ہی کامیاب کیوں نہ رہی ہو لیکن تینوں سیاستدان ہی سیاست میں معاشرتی سطح پہ انتہا درجے کی پولرائزیشن کے حامی، سیاست میں مذہبی انتہا پسندانہ رویے کے قائل، ”حق و باطل“ کے چیمپئنز ، سنٹرلائزڈ اور کنسنٹریٹڈ پاور کے حامی،پروپیگنڈسٹ، رویے کے اعتبار سے آمریت پسند، اور یونٹِری پارٹی کی سیاست کے حامی ہیں۔ بھٹو نے بھی جناح کا ماڈل اپنایا اور مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان سے ”حقیقی آزادی“ دلانے میں بھرپور کردار ادا کیا اور خان صاحب نے بھی غالباً دانستہ انہی کا ماڈل اپنایا ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
تاریخی اعتبار سے عمران خان صاحب، بھٹو اور جناح صاحب کی سیاسی حکمتِ عملی اور سوچ کا زاویہ بالکل ایک ہے۔ اگرچہ ان کی ساسی حکمتِ عملی کتنی ہی کامیاب کیوں نہ رہی ہو لیکن تینوں سیاستدان ہی سیاست میں معاشرتی سطح پہ انتہا درجے کی پولرائزیشن کے حامی، سیاست میں مذہبی انتہا پسندانہ رویے کے قائل، ”حق و باطل“ کے چیمپئنز ، سنٹرلائزڈ اور کنسنٹریٹڈ پاور کے حامی،پروپیگنڈسٹ، رویے کے اعتبار سے آمریت پسند، اور یونٹِری پارٹی کی سیاست کے حامی ہیں۔ بھٹو نے بھی جناح کا ماڈل اپنایا اور مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان سے ”حقیقی آزادی“ دلانے میں بھرپور کردار ادا کیا اور خان صاحب نے بھی غالباً دانستہ انہی کا ماڈل اپنایا ہے۔
سیاست میں کبھی بھی my way or the highway نہیں چلتا۔ جس سیاست دان نے بھی ایسا کیا اس کو بعد میں نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے
 

علی وقار

محفلین
تینوں سیاستدان ہی سیاست میں معاشرتی سطح پہ انتہا درجے کی پولرائزیشن کے حامی، سیاست میں مذہبی انتہا پسندانہ رویے کے قائل، ”حق و باطل“ کے چیمپئنز ، سنٹرلائزڈ اور کنسنٹریٹڈ پاور کے حامی،پروپیگنڈسٹ، رویے کے اعتبار سے آمریت پسند، اور یونٹِری پارٹی کی سیاست کے حامی ہیں
بھٹو اور عمران کی حد تک تو یہ جملہ گواراہے، جناح میں بھی کسی حد تک ان عوامل کا کھوج لگایا جا سکتا ہے مگر میرے ذاتی خیال میں،یہاں محمد علی جناح کے ساتھ کافی زیادتی ہو گئی ہے۔ :) تاہم، یہ تو میں بھی کہتا ہوں کہ ہمیں جناح کے گرد تقدیس کا ہالہ نہیں بنا لینا چاہیے اور غیر جانب داری سے ان کی شخصیت اور افکار کا جائزہ لینا چاہیے۔
 

سید رافع

محفلین
مولانا مسٹر جناح کے میرٹ کو نظر انداز کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں:

اب جب لیگ نے حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا تو مسٹر جناح نے ایک عجیب اقدام کیا۔ خواجہ ناظم الدین اور نواب اسماعیل نے کانگریس اور لیگ کے جھگڑوں میں کبھی انتہا پسندی کا رویہ اختیار نہیں کیا تھا۔ مسٹر جناح اس بات پر ان سے ناخوش تھے۔ انہوں نے خیال کیا ہو گا کہ یہ دونوں ان کے اشاروں پر چلنے سے شاید انکار کر دیں۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ان دونوں کو نہیں لیں گے۔۔۔

ان سب کو مسٹر جناح کے تین جی حضوریوں کی خاطر نظر انداز کر دیا۔
 

سید رافع

محفلین
سیاست میں کبھی بھی my way or the highway نہیں چلتا۔ جس سیاست دان نے بھی ایسا کیا اس کو بعد میں نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے

یہ مائی وے سے زیادہ تحمل سے زیادہ بوجھ اٹھانے کی بات ہے۔

جیسے عمران نے ریاست مدینہ پر سیاست کی مسٹر جناح نے لا الہ الا اللہ پر سیاست کی۔ ظاہر ہے یہ ڈیلیور کرنے کے لیے امام مہدی ع جیسی شخصیت کی ضرورت تھی۔
 

سید رافع

محفلین
رافع بھائی وہ تین جی حضوری کون تھے؟ یہ بھی بتا دیں۔

علی بھائی مولانا آزاد لکھتے ہیں یہ آئی آئی چندریگر، عبدالرب نشتر اور غضنفر علی خان تھے۔ بقول مولانا یہ ایسے چھپے رستم تھے، جن کے بارے میں خود لیگ کے ممبر کچھ نہیں جانتے تھے۔

مولانا مزید لکھتے ہیں:

اس میں شک نہیں کہ لیگ میں قومی حیثیت کے چند ہی لیڈر تھے، اس لیے کہ اس نے سیاسی جدوجہد میں شرکت نہیں کی تھی۔
 

سید رافع

محفلین
مولانا عدم تشدد کی سیاست کو اصول سمجھتے تھے نا کہ گاندھی جی کی طرح عقیدہ۔ اپنی کانگریس کی صدارت میں حاصل ہونے والی کامیابی کا خلاصہ یوں بیان کرتے ہیں:

برطانیہ کا ہندوستان کے قومی مطالبے کو تسلیم کر لینا، جبکہ پرامن ایجی ٹیشن اور گفتگو کے سوا کوئی ذریعہ اختیار نہیں کیا گیا تھا ایک ایسا واقعہ ہے، جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ چالیس کروڑ انسانوں کی ایک قوم فوجی اقدامات کی بدولت نہیں بلکہ گفتگو اور مفاہمت کے ذریعے آزاد ہو رہی ہے۔

مولانا اپنی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کے بارے میں سخت افسوس کے ساتھ لکھتے ہیں:

مجھے اپنے کسی فیصلے پر کبھی اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس نازک مرحلے میں کانگریس کی صدارت چھوڑنے کے فیصلے پر ہوا تھا۔ یہ میری ایک ایسی غلطی تھی، جسے گاندھی جی کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو ہمالیہ پہاڑ جیسی غلطی قرار دیا جا سکتا ہے۔

مولانا اس فیصلہ کن موڑ کر تذکرہ کرتے ہیں جہاں مسلم لیگ کے قدم تقسیم ہند کی طرف بڑھے۔ اس واقعے کے محض ١٣ ماہ بعد تقسیم ہند کا سانحہ پیش آیا۔ مولانا لکھتے ہیں:

دس جولائی ١٩۴٦ کو بمبئی میں جواہر لال نے (بحیثیت کانگریس کے نئے صدر کے) ایک پریس کانفرنس بلائی۔ اس میں انہوں نے ایک ایسا بیان دیا، جو عام حالات میں تو قابل توجہ نہ سمجھا جاتا، مگر بدگمانی اور منافرت کی فضاء میں اس سے انتہائی افسوناک نتائج کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ کچھ پریس کے نمائندوں نے جواہر لال سے سوال کیا کہ کیا کانگریس نے (کیبنٹ مشن) پلان کو مکمل طور پر تسلیم کر لیا ہے اور اسی کے ساتھ عبوری حکومت کی تشکیل بھی ہو گئی ہے؟

جواہر لال نے اس کے جواب میں کہا کہ کانگریس دستور ساز اسمبلی میں شرکت کرتے ہوئے اپنے آپ کو معاہدوں کا پابند نہ سمجھے گی اور جس قسم کے حالات پیدا ہوں گے اس کے مطابق آزادی کے ساتھ فیصلے کرے گی۔

اس پر پریس کے نمائندوں نے سوال کیا کہ کیا اس کا مطلب ہے کہ کیبنٹ مشن پلان میں ترمیم کی جا سکتی ہے؟

جواہر لال نے پر زور طریقے پر جواب دیا کہ کانگریس نے محض دستور ساز اسمبلی میں شرکت کا وعدہ کیا ہے اور وہ اپنے آپ کو کیبنٹ مشن پلان میں تبدیلی اور کمی بیشی کا مجاز سمجھتی ہے۔

مولانا کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ اس بیان کے بعد ہندوستان بھر میں مسٹر جناح کے ڈائریکٹ ایکشن کے باعث فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جو ١٣ ماہ بعد تقسیم ہند کے سانحے کا باعث بنا۔
 

علی وقار

محفلین
مولانا کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ اس بیان کے بعد ہندوستان بھر میں مسٹر جناح کے ڈائریکٹ ایکشن کے باعث فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جو ١٣ ماہ بعد تقسیم ہند کے سانحے کا باعث بنا۔
جواہر لال نے اس کے جواب میں کہا کہ کانگریس دستور ساز اسمبلی میں شرکت کرتے ہوئے اپنے آپ کو معاہدوں کا پابند نہ سمجھے گی اور جس قسم کے حالات پیدا ہوں گے اس کے مطابق آزادی کے ساتھ فیصلے کرے گی۔

اس پر پریس کے نمائندوں نے سوال کیا کہ کیا اس کا مطلب ہے کہ کیبنٹ مشن پلان میں ترمیم کی جا سکتی ہے؟
اس سے کانگریس کی اپنی نالائقی بھی ثابت ہوتی ہے جس کا مولانا خود ایک حصہ تھے۔ اس کے علاوہ جو کانگریس نے کیبنٹ مشن پلان سے چند برس قبل وزارتیں چلائی تھیں، اس میں بھی وہ مسلمانوں کا دل جیتنے میں ناکام رہے۔ جناح ہندوؤں کی نمائندگی تو کر نہیں رہے تھے، وہ مسلم لیگ کے قائد تھے، سو انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانا ہی تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف جناح کے ہونے سے پاکستان نہیں بن گیا، یہ ایک چوٹی سے لڑھکتا ہوا پتھر تھا، جو گر کر رہتا۔ جناح نے وہ کام جو قدرے تاخیر سے ہونا تھا، پہلے کروا لیا۔ مجھے تو تقریباًیقین ہے کہ اگر انگریز متحدہ ہندوستان چھوڑ کر جاتا تو آج برصغیر میں زیادہ ممالک قائم ہوتے یعنی کہ اگر پاکستان بنا ہے تو یہ دیر سے ہی سہی، بن ہی جاتا۔ اصل ایشو یہی ہے کہ جس قدر خون اس افراتفری کی تقسیم میں بہا، اس سے الگ ملک کے قیام کا عجلت میں کیا گیا فیصلہ غلط لگتا ہے۔ مزید یہ کہ ملک چلانے کے لیے ملکی نظام کے خدوخال بھی مرتب نہ کیے گئے تھے۔ عجلت میں کیے گئے کام کا بھیانک انجام یہ دیکھنے کو ملا کہ ملک آئین و قانون کے بغیر چلتا رہا، اصلاحات نہ ہو پائیں، ملک فوجی آمریت کی نذر ہو گیا جس کے ثمرات سے ہم اب تک بہرو ور ہو رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہندوستان کم از کم معاشی حوالے سے ہم سے بہتر پوزیشن میں ہے حالانکہ اس کی آبادی اربوں میں ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی بعد میں آزادی پا کر ہم سے آگے نکل گیا۔ اس متعلق ہمیں ضرور سوچنا چاہیے۔
 

سید ذیشان

محفلین
Stanley Wulpert کی کتاب Jinnah of Pakistan اس معاملے میں پڑھنے کے لائق کتاب ہے۔ اس وقت کے حالات اور سیاست کی وجہ سے مسٹر جناح کے پاس تقسیم کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا۔ جناح نے آخری وقت تک کوشش کی کہ فیڈریشن بن جائے جس میں ہر سٹیٹ کے پاس مکمل اختیارات ہوتے لیکن کانگریس کی لیڈرشپ اس سے متفق نہیں ہوئی۔ آخر میں ان کو تقسیم کی بات پر ڈٹ جانا پڑا۔

کیا یہ فیصلہ غلط تھا یا درست؟ اس میں ایک بات تو سامنے کی ہے کہ دو قومی نظریہ بنگلہ دیش بننے سے غلط ثابت ہوا۔ لیکن ہندوستان کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ مسلمانوں کی پوزیشن ہمیشہ کمزور ہی رہتی، کیونکہ مودی جیسا کوئی بھی آ کر دو تہائی اکثریت سے آئین کا تیا پانچہ کر دیتا۔ تو اس لحاظ سے تقسیم کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں بہتر ہی تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مولانا عدم تشدد کی سیاست کو اصول سمجھتے تھے نا کہ گاندھی جی کی طرح عقیدہ۔ اپنی کانگریس کی صدارت میں حاصل ہونے والی کامیابی کا خلاصہ یوں بیان کرتے ہیں:

برطانیہ کا ہندوستان کے قومی مطالبے کو تسلیم کر لینا، جبکہ پرامن ایجی ٹیشن اور گفتگو کے سوا کوئی ذریعہ اختیار نہیں کیا گیا تھا ایک ایسا واقعہ ہے، جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ چالیس کروڑ انسانوں کی ایک قوم فوجی اقدامات کی بدولت نہیں بلکہ گفتگو اور مفاہمت کے ذریعے آزاد ہو رہی ہے۔

مولانا اپنی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کے بارے میں سخت افسوس کے ساتھ لکھتے ہیں:

مجھے اپنے کسی فیصلے پر کبھی اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس نازک مرحلے میں کانگریس کی صدارت چھوڑنے کے فیصلے پر ہوا تھا۔ یہ میری ایک ایسی غلطی تھی، جسے گاندھی جی کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو ہمالیہ پہاڑ جیسی غلطی قرار دیا جا سکتا ہے۔

مولانا اس فیصلہ کن موڑ کر تذکرہ کرتے ہیں جہاں مسلم لیگ کے قدم تقسیم ہند کی طرف بڑھے۔ اس واقعے کے محض ١٣ ماہ بعد تقسیم ہند کا سانحہ پیش آیا۔ مولانا لکھتے ہیں:

دس جولائی ١٩۴٦ کو بمبئی میں جواہر لال نے (بحیثیت کانگریس کے نئے صدر کے) ایک پریس کانفرنس بلائی۔ اس میں انہوں نے ایک ایسا بیان دیا، جو عام حالات میں تو قابل توجہ نہ سمجھا جاتا، مگر بدگمانی اور منافرت کی فضاء میں اس سے انتہائی افسوناک نتائج کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ کچھ پریس کے نمائندوں نے جواہر لال سے سوال کیا کہ کیا کانگریس نے (کیبنٹ مشن) پلان کو مکمل طور پر تسلیم کر لیا ہے اور اسی کے ساتھ عبوری حکومت کی تشکیل بھی ہو گئی ہے؟

جواہر لال نے اس کے جواب میں کہا کہ کانگریس دستور ساز اسمبلی میں شرکت کرتے ہوئے اپنے آپ کو معاہدوں کا پابند نہ سمجھے گی اور جس قسم کے حالات پیدا ہوں گے اس کے مطابق آزادی کے ساتھ فیصلے کرے گی۔

اس پر پریس کے نمائندوں نے سوال کیا کہ کیا اس کا مطلب ہے کہ کیبنٹ مشن پلان میں ترمیم کی جا سکتی ہے؟

جواہر لال نے پر زور طریقے پر جواب دیا کہ کانگریس نے محض دستور ساز اسمبلی میں شرکت کا وعدہ کیا ہے اور وہ اپنے آپ کو کیبنٹ مشن پلان میں تبدیلی اور کمی بیشی کا مجاز سمجھتی ہے۔

مولانا کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ اس بیان کے بعد ہندوستان بھر میں مسٹر جناح کے ڈائریکٹ ایکشن کے باعث فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جو ١٣ ماہ بعد تقسیم ہند کے سانحے کا باعث بنا۔
آپ نے مولانا کی پوری کتاب چھاپ دی لیکن وہ چھپا گئے جس کو مولانا نے بھی اپنی اور نہرو کی زندگی میں چھپایا تھا یعنی یہ کہ پاکستان اصل میں نہرو نے بنایا تھا، اور اس سلسلے میں نہرو پر تنقید بھی کی ہے! اس سے کیا ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ظالم سلطان کے سامنے کلمہ حق مولانا بھی نہ کہہ سکے؟
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
اس سے کانگریس کی اپنی نالائقی بھی ثابت ہوتی ہے جس کا مولانا خود ایک حصہ تھے۔ اس کے علاوہ جو کانگریس نے کیبنٹ مشن پلان سے چند برس قبل وزارتیں چلائی تھیں، اس میں بھی وہ مسلمانوں کا دل جیتنے میں ناکام رہے۔ جناح ہندوؤں کی نمائندگی تو کر نہیں رہے تھے، وہ مسلم لیگ کے قائد تھے، سو انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانا ہی تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف جناح کے ہونے سے پاکستان نہیں بن گیا، یہ ایک چوٹی سے لڑھکتا ہوا پتھر تھا، جو گر کر رہتا۔ جناح نے وہ کام جو قدرے تاخیر سے ہونا تھا، پہلے کروا لیا۔ مجھے تو تقریباًیقین ہے کہ اگر انگریز متحدہ ہندوستان چھوڑ کر جاتا تو آج برصغیر میں زیادہ ممالک قائم ہوتے یعنی کہ اگر پاکستان بنا ہے تو یہ دیر سے ہی سہی، بن ہی جاتا۔ اصل ایشو یہی ہے کہ جس قدر خون اس افراتفری کی تقسیم میں بہا، اس سے الگ ملک کے قیام کا عجلت میں کیا گیا فیصلہ غلط لگتا ہے۔ مزید یہ کہ ملک چلانے کے لیے ملکی نظام کے خدوخال بھی مرتب نہ کیے گئے تھے۔ عجلت میں کیے گئے کام کا بھیانک انجام یہ دیکھنے کو ملا کہ ملک آئین و قانون کے بغیر چلتا رہا، اصلاحات نہ ہو پائیں، ملک فوجی آمریت کی نذر ہو گیا جس کے ثمرات سے ہم اب تک بہرو ور ہو رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہندوستان کم از کم معاشی حوالے سے ہم سے بہتر پوزیشن میں ہے حالانکہ اس کی آبادی اربوں میں ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی بعد میں آزادی پا کر ہم سے آگے نکل گیا۔ اس متعلق ہمیں ضرور سوچنا چاہیے۔

مولانا ، جواہر لال کی نظری بحثوں میں حصہ لینا اس بیان کا شاخْسانَہ سمجھتے ہیں۔ وہ عملی کم اور نظری زیادہ تھے۔ مسٹر جناح بہر کیف مولانا کی طرح سارے ہندوستان میں موجود ہزار سالہ مسلم نقوش کے رکوالے نہ تھے۔ جو بھی وجہ ہو میں آپ سے متفق ہوں۔ بس اور کیا کہوں!

دل جلانے سے کہاں دور اندھیرا ہوگا
رات یہ وہ ہے کہ مشکل سے سویرا ہوگا
 

سید رافع

محفلین
آپ نے مولانا کی پوری کتاب چھاپ دی لیکن وہ چھپا گئے جس کو مولانا نے بھی اپنی اور نہرو کی زندگی میں چھپایا تھا یعنی یہ کہ پاکستان اصل میں نہرو نے بنایا تھا، اور اس سلسلے میں نہرو پر تنقید بھی کی ہے! اس سے کیا ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ظالم سلطان کے سامنے کلمہ حق مولانا بھی نہ کہہ سکے؟

میں کیا چھپاوں گا کہ جب سب چھپ چکا ہے۔ لیکن آپ سے متفق ہوئے بغیر چارہ نہیں کہ یہ کتاب ١٩۵٩ میں سامنے آئی جبکہ مولانا ١٩۵٨ میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
 

جاسم محمد

محفلین
آپ نے مولانا کی پوری کتاب چھاپ دی لیکن وہ چھپا گئے جس کو مولانا نے بھی اپنی اور نہرو کی زندگی میں چھپایا تھا یعنی یہ کہ پاکستان اصل میں نہرو نے بنایا تھا، اور اس سلسلے میں نہرو پر تنقید بھی کی ہے! اس سے کیا ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ظالم سلطان کے سامنے کلمہ حق مولانا بھی نہ کہہ سکے؟
پاکستان جس نے بھی بنایا یہ بحث اب اہم نہیں رہی۔ اب تو یہ دیکھنا ہے کہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد کیا خطے کے مسلمانوں کے حالات پہلے سے بہتر ہو گئے یا مزید خراب؟ اگر مسلمان بٹوارے کی بجائے متحدہ ہندوستان میں ہی رہتے تو کیا آج بھی وہ اپنے اکثریتی علاقوں جیسے کشمیر، مغربی پنجاب، سندھ، مشرقی بنگال وغیرہ میں فوجی مارشل لا کے نیچے زندگی گزار رہے ہوتے؟
 

علی وقار

محفلین
پاکستان جس نے بھی بنایا یہ بحث اب اہم نہیں رہی۔ اب تو یہ دیکھنا ہے کہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد کیا خطے کے مسلمانوں کے حالات پہلے سے بہتر ہو گئے یا مزید خراب؟ اگر مسلمان بٹوارے کی بجائے متحدہ ہندوستان میں ہی رہتے تو کیا آج بھی وہ اپنے اکثریتی علاقوں جیسے کشمیر، مغربی پنجاب، سندھ، مشرقی بنگال وغیرہ میں فوجی مارشل لا کے نیچے زندگی گزار رہے ہوتے؟
میرے خیال میں، متحدہ ہندوستان بننے پر حالات جلد ہی ایسے بن جانے تھے کہ اس طرف بسنے والے مسلسل بغاوت پر آمادہ رہتے جس سے برصغیر کے طول و عرض میں بھی بے چینی رہتی یعنی ان علاقوں میں بھی جہاں انڈیا فی الوقت قائم ہے۔ کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد متحدہ ہندوستان اسی طرح قائم و دائم رہتا یعنی کہ مغربی پنجاب، پختون خواہ اور دیگر علاقوں کے ساتھ۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ اگر متحدہ ہندوستان انیس سو سینتالیس میں قائم بھی ہو جاتا تو یہاں اس سے بھی زیادہ انارکی پھیل جاتی۔

انڈیا کو ایسے عبقری دماغ ضرور مل گئے تھے کہ انہوں نے ہم سے بہتر طور پر نظام چلا لیا۔ ہمیں الگ خطہ مل گیا مگر ہمارے اندر ایسی اہلیت نہ تھی کہ اسے اچھی طرح چلا پاتے۔ آج معاشی لحاظ سے ہم تباہی کے دہانے پر ہیں۔ انڈیا اور بنگلہ دیش کو ایسے خطرات درپیش نہیں ہیں۔ ستر برس میں ہمارے ہاتھ سے بہت کچھ نکل چکا۔ عوام کے حالات سدھر نہ پائے۔ سیاست دانوں کے نام پر ایسی پود میدان میں موجود ہے جو ہر کلیدی فیصلہ کرنے سے پہلے جی ایچ کیو کے موڈ کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہے۔ میڈیا غیر جانب دار نہیں ہے، خود فریق بن چکا ہے۔ عدلیہ کا حال ہمارے سامنے ہے۔ خود ملٹری اسٹیبلشمنٹ چہار سو تباہی پھیلانے کے بعد نیوٹرل بننے کی خواہاں ہے تاہم حال ان کا یہی ہے کہ اندھا بانٹے ریوڑی، اپنوں ہی کو دے۔

سو یہ ہم ہیں، یہ ہمارا ملک ہے، اور پارٹی (پارری) ہو رہی ہے۔
 
Top