ابولکلام آزاد کی نظر میں مسٹرجناح بحیثیت ایک فرقہ پرست

سید ذیشان

محفلین
پاکستان جس نے بھی بنایا یہ بحث اب اہم نہیں رہی۔ اب تو یہ دیکھنا ہے کہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد کیا خطے کے مسلمانوں کے حالات پہلے سے بہتر ہو گئے یا مزید خراب؟ اگر مسلمان بٹوارے کی بجائے متحدہ ہندوستان میں ہی رہتے تو کیا آج بھی وہ اپنے اکثریتی علاقوں جیسے کشمیر، مغربی پنجاب، سندھ، مشرقی بنگال وغیرہ میں فوجی مارشل لا کے نیچے زندگی گزار رہے ہوتے؟
ہندوستان میں معاشی لحاظ سے مسلمان سب سے نچلا طبقہ ہے۔
 

سید رافع

محفلین
راجندر سچر کمیٹی 2005ء میں سابقہ انڈین وزیرِ اعظم منموہن سنگھ نے قائم کی تاکہ مسلم کمیونٹی کی تازہ ترین سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت کا جائزہ لے کر اس پر رپورٹ پیش کر سکے۔

سچر کمیٹی نے یہ واضح کیا کہ مسلمانوں کی حالت شیڈیولڈ کاسٹس اور شیڈیولڈ قبائل سے بھی گئی گزری تھی۔

بی بی سی نے اپنے ایک مضمون میں مسلمانوں کو انڈیا کے نئے دلت کہا ہے۔
 

سید رافع

محفلین
بنگلہ دیش میں مسلم آبادی ٩١ فیصد ہے۔ میرا خیال ہے وہ پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں سے زیادہ خوشحال ہیں۔ دوسرے نمبر پر پاکستان اور تیسرے پر ہندوستان کے مسلمان معاشی حوالے سے خوشحال ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میں کیا چھپاوں گا کہ جب سب چھپ چکا ہے۔ لیکن آپ سے متفق ہوئے بغیر چارہ نہیں کہ یہ کتاب ١٩۵٩ میں سامنے آئی جبکہ مولانا ١٩۵٨ میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔
جی کتاب کا پہلا ایڈیشن 1958ءٰ میں چھپا تھا لیکن اس کتاب کے درجنوں صفحات مولانا کی خواہش پر کلکتہ کی لائبریری میں 30 سال کے لیے سر بمہر کر دیئے گئے تھے اور پہلی بار 1988ء میں چھپے تھے۔ یہ وہی صفحات ہیں جن میں مولانا نے نہرو پر تنقید کی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین

مولانا ابوالکلام آزاد جنھوں نے 1946 میں ’بنگلہ دیش‘ کے قیام کی پیشگوئی کی​

مولانا ابوالکلام آزاد 11 نومبر 1888 کو سعودی عرب کے شہر مکہ میں ایک ہندوستانی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ہندوستان میں سنہ 1857 کی ناکام بغاوت کے بعد ان کا خاندان مکہ چلا گیا تھا۔
ان کے والد مولانا خیرالدین سنہ 1898 کے دوران اپنے خاندان سمیت ہندوستان لوٹے اور کلکتہ میں رہنے لگے۔ آزاد کو بچپن سے ہی کتابوں کا شوق تھا۔ جب وہ 12 سال کے تھے تو انھوں نے بچوں کے رسالوں میں مضامین لکھنا شروع کر دیے تھے۔
سنہ 1912 میں آزاد نے ’الہلال‘ کے نام سے ایک رسالہ شروع کیا۔ یہ رسالہ اپنے انقلابی مضامین کی وجہ سے کافی زیر بحث رہا اور برطانوی حکومت نے دو سال کے اندر اندر اس کی سکیورٹی منی یعنی حفاظتی رقم ضبط کر لی اور بھاری جرمانے لگا کر اسے بند کر دیا۔


 

سید رافع

محفلین
کتاب کا پہلا ایڈیشن 1958ءٰ میں چھپا تھا

کتاب کا پہلا مجلد ایڈیشن جنوری 1959 میں شایع ہوا تھا۔ اسکے مکمل متن کو 30 سال کے حساب سے فروری 1988 میں شایع ہونا چاہیے تھا جو بعض رکاوٹوں کے باعث تاخیر سے ستمبر 1988 میں شایع ہوا۔
 

سید رافع

محفلین
یہ وہی صفحات ہیں جن میں مولانا نے نہرو پر تنقید کی ہے۔

اس سلسلے میں میرے پاس کوئی حتمی ثبوت تو نہیں ہے۔ ہاں مولانا کے پرسنل سیکریٹری اور انڈیا ونس فریڈم کے مولف پروفیسر ہمایوں کبیر کا ایک بیان موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

جب پوری کتاب مولانا آزاد کے ہاتھ میں آ گئی، تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کے قریب 30 صفح جن میں ایسے مسائل اور ایسے تاثرات پر بحث کی گئی ہے، جو بڑی حد تک ذاتی اور شخصی ہیں، فی الحال شایع نہ کیے جائیں۔۔۔ میں نے انکی ہدایت کے مطابق تبدیلیاں کردیں اور نومبر 1957، کے آخر میں کتاب کا مسودہ نظر ثانی اور کاٹ چھانٹ کے بعد مولانا آزاد کی خدمت میں پیش کر دیا۔

گاندھی جی، پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل (جو ایک متعصب ہندو کانگریسی لیڈر) تھے ، انکے بارے میں مولانا آزاد کی رائے کا علم جنوری 1959 کے پہلے ایڈیشن سے ہو جاتا ہے۔ پہلے ایڈیشن ہی سے نہ صرف مولانا کی رائے اور انداز فکر کا اندازہ ہو گیا تھا بلکہ قطعی رائے معلوم ہو گئی تھی۔ اس لیے جواہر لال پر تنقید چھپانے کا سوال ایک حد طے ہو جاتا ہے۔
 
میرے خیال میں، متحدہ ہندوستان بننے پر حالات جلد ہی ایسے بن جانے تھے کہ اس طرف بسنے والے مسلسل بغاوت پر آمادہ رہتے جس سے برصغیر کے طول و عرض میں بھی بے چینی رہتی یعنی ان علاقوں میں بھی جہاں انڈیا فی الوقت قائم ہے۔ کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد متحدہ ہندوستان اسی طرح قائم و دائم رہتا یعنی کہ مغربی پنجاب، پختون خواہ اور دیگر علاقوں کے ساتھ۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ اگر متحدہ ہندوستان انیس سو سینتالیس میں قائم بھی ہو جاتا تو یہاں اس سے بھی زیادہ انارکی پھیل جاتی۔

انڈیا کو ایسے عبقری دماغ ضرور مل گئے تھے کہ انہوں نے ہم سے بہتر طور پر نظام چلا لیا۔ ہمیں الگ خطہ مل گیا مگر ہمارے اندر ایسی اہلیت نہ تھی کہ اسے اچھی طرح چلا پاتے۔ آج معاشی لحاظ سے ہم تباہی کے دہانے پر ہیں۔ انڈیا اور بنگلہ دیش کو ایسے خطرات درپیش نہیں ہیں۔ ستر برس میں ہمارے ہاتھ سے بہت کچھ نکل چکا۔ عوام کے حالات سدھر نہ پائے۔ سیاست دانوں کے نام پر ایسی پود میدان میں موجود ہے جو ہر کلیدی فیصلہ کرنے سے پہلے جی ایچ کیو کے موڈ کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہے۔ میڈیا غیر جانب دار نہیں ہے، خود فریق بن چکا ہے۔ عدلیہ کا حال ہمارے سامنے ہے۔ خود ملٹری اسٹیبلشمنٹ چہار سو تباہی پھیلانے کے بعد نیوٹرل بننے کی خواہاں ہے تاہم حال ان کا یہی ہے کہ اندھا بانٹے ریوڑی، اپنوں ہی کو دے۔

سو یہ ہم ہیں، یہ ہمارا ملک ہے، اور پارٹی (پارری) ہو رہی ہے۔
ویسے ہندوستان اور پاکستان کا موازنہ کرتے ہوئے دونو‍ں کے حصے میں آنے والے جغرافیہ اور ڈیموگرافی کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے. یہ بھی ایک بھی حقیقت ہے کہ جن علاقوں میں پاکستان قائم ہوا، وہ تعلیمی، صنعتی اور تجارتی اعتبار سے باقی ماندہ ہندوستان سے کہیں زیادہ پسماندہ تھے ... یوں دونوں نو آزاد ریاستوں نے اپنا سفر ایک ہی اسٹارٹنگ لائن سے نہیں شروع کیا تھا حتی کہ نوزائیدہ پاکستان کا تو اپنے فائننس تک پر کنٹرول نہیں تھا ...
متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ممکنہ "اجتماعی قوت" کا اندازہ لگانا بھی کچھ ایسا مشکل نہیں ... ہندوستان کے آئین میں اسمبلی (لوک سبھا) کی نشستوں کی اوپری حد کا تعین کیا گیا ہے. اگر اسی فارمولے کو متحدہ ہندوستان پر ایکسٹراپولیٹ کر لیں تب بھی مسلمانوں کے پاس مرکزی اسمبلی اتنی نشستیں آنے کا امکان نہیں ہوتا کہ وہ ہندووں کی سادہ اکثریت کا مقابلہ کرسکیں.
 
اصولا ویسے انگریزوں کو برصغیر کو ڈی سینٹرلایز کر کے چھوڑنا چاہیے تھا، جیسا کہ یہ ان کے قبضے سے پہلے کم و بیش تھا. ہر صوبہ اور ریاست خود مختار ہوتے ... تو امکان تھا کہ برصغیر کی سیاسی ہیئت آج یورپ کی طرز پر ہوتی (شاید کچھ جنگوں کے بعد) ... ہوسکتا ہے کچھ صوبے اور ریاستیں مل کر کوئی فیڈریشن یا کنفیڈریشن بنا لیتے ...
 

محمد وارث

لائبریرین
پاکستان جس نے بھی بنایا یہ بحث اب اہم نہیں رہی۔ اب تو یہ دیکھنا ہے کہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد کیا خطے کے مسلمانوں کے حالات پہلے سے بہتر ہو گئے یا مزید خراب؟ اگر مسلمان بٹوارے کی بجائے متحدہ ہندوستان میں ہی رہتے تو کیا آج بھی وہ اپنے اکثریتی علاقوں جیسے کشمیر، مغربی پنجاب، سندھ، مشرقی بنگال وغیرہ میں فوجی مارشل لا کے نیچے زندگی گزار رہے ہوتے؟
مولانا ابوالکلام اور نیشنلسٹ مسلمانوں کا سارا استدلال اس نکتے پر تھا اور ہے کہ اگر برصغیر کے مسلمان متحد رہتے تو بھلے ہندؤں کے مقابلے میں اقلیت ہی میں رہتے لیکن ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی کہ اپنی مرضی کی شرائط پر عمل کروا لیتے اور ہندوستان میں کوئی حکومت ان کے بغیر نہ بنتی اور یہ بہت بہتر حالت میں ہوتے۔

بظاہر یہ دلیل بہت جاندار ہے اور لبھاتی بھی ہے لیکن زمینی حقائق سے کوسوں دُور ہے۔ اس میں سب سے بڑا مفروضہ یہ ہے کہ برصغیر کے (موجودہ) پچاس ساٹھ کروڑ مسلمان متحد ہوتے اور متحد ہو کر ہندؤں سے اپنی بات منواتے! کیا یہ ممکن ہے؟ کیا اتنے مسلمان ایک جھنڈے تلے اکھٹے ہو سکتے ہیں؟ پاکستان اور بنگلہ دیش کو چھوڑیے کہ یہاں اب مسلمان اکثریت میں لیکن ہندوستان میں ایک بڑی تعداد ہونے کے باوجود کیا مسلمان متحد ہیں؟ کیا ہندوستان میں جگہ جگہ مسلمانوں کی علیحدہ جماعتیں نہیں ہیں۔ فرض کریں کہ ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو کا فارمولا کیا صرف انگریزوں ہی کو آتا تھا؟ کانگریس کو اس کا پتا نہیں تھا۔ کانگریس بھی یہی کرتی اور انہوں نے کیا بھی۔ تقسیم سے پہلے بھی اور بعد بھی۔

1946ء کے الیکشنز کے بعد مولانا ابوالکلام بنفس نفیس لاہور تشریف لائے اور پنجاب میں مسلم لیگ جو اکثریتی پارٹی تھی اس کے حکومت بنانے کے خلاف ڈٹ گئے، اور جوڑ توڑ کر کے (یہی وہی رول ہے جو آج کل پاکستان میں ایک سابقہ صدرِ مملکت ادا کرتے ہیں) یونینسٹ پارٹی کا وزیر اعلیٰ بنوا دیا جو کہ نشتوں کے حساب سے چوتھے نمبر پر تھا۔ اسی ایک مثال پر قیاس کر لیں کہ متحد رہنے کی صورت میں مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں میں بالخصوص اور باقی ہندوستان میں بالعموم کس طرح کی سیاست ہوتی!
 

سید رافع

محفلین
اصولا ویسے انگریزوں کو برصغیر کو ڈی سینٹرلایز کر کے چھوڑنا چاہیے تھا، جیسا کہ یہ ان کے قبضے سے پہلے کم و بیش تھا.

انگریزوں کو برصغیر کو ڈی سینٹرلایز کر کے چھوڑ کر جانا شاید ممکن ہی نہ تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سلطنتیں ختم ہو گئ تھیں اور جمہوریت نے اسکی جگہ لے لی تھی۔ انگریز آئے تو سلطنت برطانیہ بنائی اور گئے تو ایک جمہوری ملک برطانیہ بنایا۔ اس لیے برصغیر کو بھی ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے۔ مولانا نے بار باراپنی کتاب میں کانگریس کی اس پالیسی کو دوہرایا ہے کہ انگریزوں کے ساتھ جنگ عظیم دویم میں تعاون اسی صورت میں ممکن ہیں جب وہ ہندوستان سے اپنی امپیرئیل حکومت ختم کریں، ہندوستان چھوڑ دیں اور یہاں بھی جمہوریت قائم کریں۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
اگر برصغیر کے مسلمان متحد رہتے تو بھلے ہندؤں کے مقابلے میں اقلیت ہی میں رہتے لیکن ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی کہ اپنی مرضی کی شرائط پر عمل کروا لیتے اور ہندوستان میں کوئی حکومت ان کے بغیر نہ بنتی اور یہ بہت بہتر حالت میں ہوتے۔

اگر اس کے برعکس سوچیں تو ایک دائمی خوف کا ذہن بنتا ہے جو ہر ایک کو مجبور کرتا ہے کہ اپنی ڈیڑھ اینٹھ کی مسجد بنائے۔ جبکہ مسلمان ہندوں قریہ قریہ، شہر شہر اور گاوں گاوں تب بھی اور آج بھی ایک ساتھ رہ ہے ہیں۔ مولانا نے مسٹر جناح اور لیگ کے اس خوف بھرے پروپگینڈے اور فرقہ واریت کو یوں واضح کیا ہے۔

بحث کی خاطر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستان خود مسلمانوں کے مفاد کے لیے اس قدر مضر ہے تو مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد اس کے فریب حسن میں کیوں مبتلا ہو گئی؟ اس کا جواب ہمیں انتہا پسند فرقہ پرست ہندووں کے رویے سے ملتا ہے۔ جب مسلم لیگ نے پاکستان کی گفتگو چھیڑی تو انہیں اس میں اتحاد اسلامی کی ایک ناپاک سازش نظر آنے لگی اور انہوں نے اس خوف میں اسکی مخالفت شروع کی کہ یہ ہندوستانی مسلمانوں اور مسلمانوں کی ریاستوں کے درمیان جتھا بندی کا پیش خیمہ ہے۔

اس مخالفت نے لیگ کے حامیوں کو اور اکسایا انہوں نے ایک سیدھے سادے مگر غیر معمولی منطقی استدلال سے کام لے کر کہا کہ چونکہ ہندو اتنی شدت سے پاکستان کی مخالفت کرتے ہیں اس لیے یقینا اس میں مسلمانوں کا فائدہ ہو گا۔ اس طرح جذباتی ہیجان کی ایسی فضا پیدا ہو گئی جس میں سوچ سمجھ کر اچھے برے کے درمیان تمیز کرنا ناممکن ہو گیا اور خاص طور مسلمانوں کا نوجوان اور اثر پذیر طبقہ جذبات کی رو میں بہہ گیا۔


آج بھی پاکستان کی سیاسی اور عسکری قوتیں اس احمقانہ خوف کے ذریعے پاکستانیوں پر حکومت کر رہیں ہیں جبکہ کروڑ ہا کروڑ ہندو اور مسلمان ہندوستان میں قریہ قریہ، شہر شہر اور گاوں گاوں رہ رہے ہیں۔ یہ انسان کی عام نفسیات ہے، کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ وہ مل جل کر رہتا ہے۔
 
اس لیے برصغیر کو بھی ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے۔
ہندوستان کو بطور ایک اکائی رکھنے پیچھے جمہوریت کے عشق سے زیادہ سرد جنگ کی تیاری کی پیش بندی کے طور پر ایشیا میں ایک بڑی اتحادی مملکت کی موجودگی کی خواہش زیادہ کارفرما تھی ۔۔۔ جمہوری ممالک کے طور پر تو برطانوی راج کے صوبے بھی کام کر سکتے تھے ۔۔۔ باقی رہے راجواڑے اور شاہی ریاستیں تو ان میں سے زیادہ تر چھوٹی ریاستیں تو شاید خود ہی خود سے ملحق بڑے صوبوں میں مدغم ہو جاتیں ۔۔۔ صرف حیدر آباد، کشمیر ، بہاولپور اور بلوچستان کی بعض ریاستیں ایسی تھیں جو اپنی خودمختار حیثیت برقرار رکھ پاتیں اور جلد یا بدیر وہ بھی ارتقا کر کے برطانیہ کی طرز پر آئینی بادشاہتوں میں تبدیل ہو جاتیں ۔۔۔ خیر یہ سب امکانات کی باتیں ہیں ۔۔۔ یوں ہوتا تو کیا ہوتا، یوں ہوتا تو کیا ہوتا سے زیادہ ان کی اہمیت نہیں ۔۔۔ حقیقت یہی ہے کہ وقت نے یہ بارہا ثابت کیا ہے کہ متحدہ ہندوستان میں بالآخر ہندوتوا کو غلبہ ملنا ہی تھا ۔۔۔ مسلمانوں کی اجتماعی سیاسی قوت محض ایک سراب ہی رہتی
 

سید رافع

محفلین
حقیقت یہی ہے کہ وقت نے یہ بارہا ثابت کیا ہے کہ متحدہ ہندوستان میں بالآخر ہندوتوا کو غلبہ ملنا ہی تھا ۔۔۔ مسلمانوں کی اجتماعی سیاسی قوت محض ایک سراب ہی رہتی

یہ سوچ ہی غلط ہے کہ ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں، چنانچہ ہر ایک کے لیے ایک علحیدہ وطن ہونا چاہیے۔ ہر مسلمان اور ہندو انسان ہے۔
 

سید رافع

محفلین
اس میں سب سے بڑا مفروضہ یہ ہے کہ برصغیر کے (موجودہ) پچاس ساٹھ کروڑ مسلمان متحد ہوتے اور متحد ہو کر ہندؤں سے اپنی بات منواتے! کیا یہ ممکن ہے؟ کیا اتنے مسلمان ایک جھنڈے تلے اکھٹے ہو سکتے ہیں؟

اس مفروضے کی سب سے فاش غلطی یہ ہے کہ مسلمانوں کو صرف مسلمانوں کے حقوق منوانے کا ذمہ دار سمجھا گیا ہے۔
 
Top