پاکستان جس نے بھی بنایا یہ بحث اب اہم نہیں رہی۔ اب تو یہ دیکھنا ہے کہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد کیا خطے کے مسلمانوں کے حالات پہلے سے بہتر ہو گئے یا مزید خراب؟ اگر مسلمان بٹوارے کی بجائے متحدہ ہندوستان میں ہی رہتے تو کیا آج بھی وہ اپنے اکثریتی علاقوں جیسے کشمیر، مغربی پنجاب، سندھ، مشرقی بنگال وغیرہ میں فوجی مارشل لا کے نیچے زندگی گزار رہے ہوتے؟
مولانا ابوالکلام اور نیشنلسٹ مسلمانوں کا سارا استدلال اس نکتے پر تھا اور ہے کہ اگر برصغیر کے مسلمان متحد رہتے تو بھلے ہندؤں کے مقابلے میں اقلیت ہی میں رہتے لیکن ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی کہ اپنی مرضی کی شرائط پر عمل کروا لیتے اور ہندوستان میں کوئی حکومت ان کے بغیر نہ بنتی اور یہ بہت بہتر حالت میں ہوتے۔
بظاہر یہ دلیل بہت جاندار ہے اور لبھاتی بھی ہے لیکن زمینی حقائق سے کوسوں دُور ہے۔ اس میں سب سے بڑا مفروضہ یہ ہے کہ برصغیر کے (موجودہ) پچاس ساٹھ کروڑ مسلمان متحد ہوتے اور متحد ہو کر ہندؤں سے اپنی بات منواتے! کیا یہ ممکن ہے؟ کیا اتنے مسلمان ایک جھنڈے تلے اکھٹے ہو سکتے ہیں؟ پاکستان اور بنگلہ دیش کو چھوڑیے کہ یہاں اب مسلمان اکثریت میں لیکن ہندوستان میں ایک بڑی تعداد ہونے کے باوجود کیا مسلمان متحد ہیں؟ کیا ہندوستان میں جگہ جگہ مسلمانوں کی علیحدہ جماعتیں نہیں ہیں۔ فرض کریں کہ ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو کا فارمولا کیا صرف انگریزوں ہی کو آتا تھا؟ کانگریس کو اس کا پتا نہیں تھا۔ کانگریس بھی یہی کرتی اور انہوں نے کیا بھی۔ تقسیم سے پہلے بھی اور بعد بھی۔
1946ء کے الیکشنز کے بعد مولانا ابوالکلام بنفس نفیس لاہور تشریف لائے اور پنجاب میں مسلم لیگ جو اکثریتی پارٹی تھی اس کے حکومت بنانے کے خلاف ڈٹ گئے، اور جوڑ توڑ کر کے (یہی وہی رول ہے جو آج کل پاکستان میں ایک سابقہ صدرِ مملکت ادا کرتے ہیں) یونینسٹ پارٹی کا وزیر اعلیٰ بنوا دیا جو کہ نشتوں کے حساب سے چوتھے نمبر پر تھا۔ اسی ایک مثال پر قیاس کر لیں کہ متحد رہنے کی صورت میں مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں میں بالخصوص اور باقی ہندوستان میں بالعموم کس طرح کی سیاست ہوتی!