وارث بھائی اور سخنور شکریہ بعد کے لیے اٹھا رکھیں۔ غزل یہاں آپ کی رائے حاصل کرنے اور اپنی غلطیوں تک پہنچنے کے لیے پیش کی ہے۔ اس میں سقم دور کریں اور میری غلطی کی نشان دہی کریں۔ آپ کا ممنون رہوں گا۔ مجھے “مری“ میں مسئلہ معلوم ہو رہا ہے اور اسی طرح دوسرے شعر میں “مرے“ سے بھی مطمئن نہلیں ہو۔ ہو سکتا ہے درست باندھا ہو مگر آپ کچھ کہیں تو بات بنے ورنہ پریشان رہوں گا
عارف صاحب اگر آپ یہ بھی لکھ دیتے کہ 'مرے' اور 'مری' سے مطمئن کیوں نہیں ہیں تو زیادہ وضاحت ہو جاتی۔ بہرحال حرفے چند:
یہ غزل بحر ہزج کی ایک ضمنی صورت مسدس محذوف میں ہے، اور اسکے افاعیل ہیں
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
اب اگر ہر مصرع "مفاعیلن" کی "مَ" سے شروع ہوگا تو ہر مصرعے کے شروع میں لازماً یہی وزن آئے گا، اگر اشاری نظام آپ کے علم میں ہو تو 1 آئے گا۔ (الف وصل کے استثنا کے ساتھ)
اب مصرعوں پر غور کریں، کیسے شروع ہو رہے ہیں، ابھی، ہمارے، مسافر، بہت، ہمیں، اگرچہ، ہر لفظ مفاعیلن کی مَ کے وزن سے شروع ہو رہا، اَ، ہَ، مُ، بُ، ہَ، اَ وغیرہ سو 'مری' اور 'مرے' وزن چاہیئے بجائے میری اور میرے کے۔
یہ صورت نہ صرف مصرعے کے شروع میں چاہیئے بلکہ ہر مفاعیلن کے شروع میں چاہیئے، لیکن مصرعوں کے درمیان ضروری نہیں کہ لفظ آپ کو متحرک لگے وہ ساکن بھی ہو سکتا ہے، جیسے قافیوں کا نون دوسرے مفاعیلن کی مَ پر آ رہا ہے(یہ روایتی عروض کا نقص ہے، عروضی اسے بھی متحرک مان کر مَ کے وزن پر لے آتے ہیں، اشاری نظام میں مَ کو متحرک یا ساکن نہیں سمجھا جاتا، بس 1 ہے چاہے متحرک ہے یا ساکن)۔
تیسرے رکن 'فعولن' کی فَ پھر ہجائے کوتاہ یا 1 ہے سو یہ ردیف کی نہیں میں نَ سے شروع ہوتا ہے، یا دیگر الفاظ مثلاً دھول مٹّی میں 'ل' سے وغیرہ۔
امید ہے وضاحت ہو گئی ہوگی بصورتِ دیگر ضرور بتائیے گا۔
والسلام