ابھی امکان میں کچھ بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ عارف عزیز

گُلاب {گُلاب} (فارسی)
گُل، گُلاب
اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ 1609ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مذکر - واحد)
جمع غیر ندائی: گُلابوں {گُلا + بوں (و مجہول)}




1. ایک خوبصورت اور خوشبودار پھول نیز اس کے پودے کا نام، پودا کانٹے دار ہوتا ہے، پھول عموماً ہلکا سرخ (گلابی) ہوتا ہے، سرخ، زرد اور سفید رنگ کا بھی ہوتا ہے۔
"اس گلاب میں خوشبو نہیں تھی جو دوسرے گلاب میں ہوتی ہے۔"، [1]
2. گلاب کے پھولوں کا عرق جو کھانوں میں خوشبو کے لیے اور امراض میں دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
؎ گلاب جیسے وہ عارض نظر میں کیا آئے
ہماری آنکھوں سے اب تک گلاب ٹپکے ہے،

موتِیا {مو (و مجہول) + تِیا} (پراکرت)
صفت ذاتی

1. موتی کی مانند، موتی سے مشابہ، مثل گوہر، موتی کی طرح چمکیلا، موتی کے رنگ کا۔
اسم نکرہ

1. بیلے کی عمدہ قسم کا ایک سفید خوشبودار پھول جو چنبیلی سے موٹا اور زیادہ پنکھڑیوں کا ہوتا ہے اور جس کی منہ بند کلی موتی سے مشابہ ہوتی ہے۔ (لاط: Jasmine Zambac)
 
Top