رضوان راز
محفلین
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے
احمد حاطب صدیقی (ابونثر)
لو، اور سُنو! اب کہنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ
’’پوری قوم کا مزاج ’تنقیدی مزاج‘ ہوگیا ہے۔ جسے دیکھو بس تنقید کیے جارہا ہے۔ ہر بات پر تنقید۔ اچھی بات پر بھی تنقید اور بُری بات پر توخیر تنقید کا حق بنتا ہی ہے۔‘‘ مگر یہ بات کہنے والے خود کیا کررہے ہیں؟ تنقید کرنے والوں پر تنقید ہی تو کررہے ہیں۔
یہ تماشا دیکھ کر آج ہمارا بھی جی چاہا کہ لفظ ’تنقید‘ کے بے موقع استعمال پرجی کھول کر تنقیدکی جاوے۔ اس مفید لفظ کا غیر مفید استعمال عام ہوا جارہا ہے۔ تنقید کرنے کے جو معانی اب لیے جانے لگے ہیں وہ عَجَب ہیں: ’کسی کو بُرا بھلا کہنا، کسی کے اندر عیب تلاش کرنا، کسی کی بُرائیاں کھوجنا، کسی پر اعتراض کرنا اور کسی کے نقائص بیان کرنا‘ وغیرہ وغیرہ۔گویا تنقید کے عمل کو ایک بُرا عمل بنادیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ قابلؔ اجمیری جیسے قابل شخص کو بھی اپنے دیوانہ پن پر ’اُن‘کی طرف سے ہونے والے ’اعتراضات ‘کا ذکر کرنے کے لیے یہی لفظ سُوجھا:
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن
تمھاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے
کیا معلوم وہ کیا کریں گے؟ عجب نہیں کہ جواب میں وہ بھی کوئی شعر بک دیں۔ مگر تنقید کے موجودہ تصورات کی جو فہرست اوپر دی گئی ہے وہ سب مفاہیم لفظ ’تنقیص‘ کے ہیں۔ عزیزو! برائی بیان کرنے کو تنقید نہیں کہتے، تنقیص کہتے ہیں۔ تنقید تو اور ہی شے ہے۔
’تنقید‘ کا لفظ نکلا ہے’نَقَدَ‘ سے۔ ’نَقَدَ‘ کے لفظی معنی ہیں ’چونچ مارنا‘۔ راقم الحروف کا نہایت محققانہ خیال ہے کہ چونچ وہی مارے گا جس کے چونچ ہوگی۔ پس پرندوں ہی کو چونچ مارنے کا حق ہے۔ اور حق تو یہ ہے کہ مرغا بھی ایک پرندہ ہے۔ پَر انسانوں کا ڈالا ہوا رزق کھا کھا کر اِس طائرِ لاہوتی کی پرواز میں کوتاہی آگئی ہے۔ اب زمین سے اُڑکر بس دیوار کے اوپر تک جاتا ہے اور دیوار سے اُڑان بھر کر واپس زمین پراُتر آتا ہے، اس تمنا میں کہ زمین پر اُترتے ہی شاید وہ بھی آدمی بن جائے۔ سُنا ہے کسی روز سلیمؔ بھائی نے منہ اُٹھاکر اپنے دیوار نشیں مرغِ بیت سے کہہ دیا تھا کہ ’’اب ذرا نیچے اُتریے آدمی بن جائیے‘‘۔حاصلِ کلام یہ کہ مرغے کے پر بھی ہیں اور چونچ بھی۔ آپ نے چونچ مارتے تو دیکھا ہی ہوگا، بالخصوص بی مرغی اور اُن کے میاں مرغِ مُسَلّم کو،باہم۔ یہاں لفظ ’مُسَلّم‘ پر ہم نے ایک خاص وجہ سے خاص کر کے اِعراب لگائے گئے ہیں۔وہ خاص وجہ یہ ہے کہ ایک خاص ٹیلی وژن چینل کی ایک خاص خاتون نے ایک خاص پروگرام میں (غالباًیہ دیکھ کرکہ مرغ مسلمانوں کا من بھاتا کھاجا ہے) مرغِ مُسَلّم کو ’مرغِ مُسلِم‘ پڑھ دیا۔اس پر محترمہ قانتہ رابعہ (گوجرہ) سے کوئی بچہ پوچھ بیٹھا:
’’نانی امّاں!کیا مرغ غیر مُسلم بھی ہوتا ہے؟‘‘
بچے کو سمجھانا چاہیے کہ غیر مسلم صرف انسانوں اور جنوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کے سوا دیگر تمام مخلوقات اور اللہ تعالیٰ کی تمام تخلیقات چار و ناچار مُسلم ہیں۔ دیکھیے مرغ کا ذکر آتے ہی ہم موضوع سے بھٹک کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ بتانا یہ تھا کہ مرغا مرغی، دونوں مسلم میاں بیوی، اپنے آٹھ دس بچوں کے ساتھ، رزقِ حلال کی تلاش میں زمین پر چونچ مارتے پھرتے ہیں۔ چونچ سے زمین کریدتے ہیں اور زمین کرید کرید کر گھاس پھوس یا دیگر غیر مطلوب اشیاکو الگ کردیتے ہیں۔ پھراپنی پسند کے کیڑے مکوڑے یا دانہ دُنکا الگ نکال کر ہنسی خوشی کھا لیتے ہیں۔ تو اے بیگمات اور اے حضرات! ’’دس بچے خوش حال گھرانا‘‘ کا عالی شان نصب العین رکھنے والے اس کثیرالاولاد گھرانے کا وہ سارا عمل ’’تنقید‘‘ کہلاتا ہے کہ جس عمل میں حصولِ رزقِ حلال کے لیے وہ فرداً فرداً اپنی چونچ استعمال کرتے ہیں۔
گویا تنقید کا عمل اصلاً گھاس پھوس الگ اور دانہ دُنکا الگ کردینے کا عمل ہے۔ مدیرانِ جرائد کو اس فن میں طاق ہونا چاہیے اور ہیں بھی۔ ہم نے بہت سے مدیروں کو دیکھا ہے کہ موصولہ مضامین میں سے بڑی محنت، مشقت اور مہارت سے چن چن کر یا چگ چگ کر دانہ دُنکا الگ نکال لیتے ہیں اورگھاس پھوس چھاپ دیتے ہیں۔
اُردو میں ’نقد‘کے ایک معنی تو وہی ہیں جو فوراً آپ کے ذہن میں آگئے کہ یہی معنی نظیرؔ اکبر آبادی کے ذہن میں بھی تھے، کہتے ہیں:
کلجگ نہیں، کرجُگ ہے یہ، یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہات دے اُس ہات لے
’کَل جُگ‘ کا مطلب ہے کالا زمانہ، جس میں گناہوں کی کثرت ہو۔ لوٹ مار کا دور دورہ ہو۔ ’کَرجُگ‘ کام کرنے کا زمانہ، ادلے بدلے کا زمانہ۔ ’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘ کا دور۔ سودا نقد لینے کے لیے جو مال و زر استعمال ہوتا ہے اُسے ’نقدی‘ کہتے ہیں۔ درہم و دینار کے لیے ’نقد‘ کا لفظ اس وجہ سے بھی استعمال کیا گیا کہ ان کے لین دین کے وقت کھرا کھوٹا پرکھا جاتا ہے۔ جو رقم فوراً ادا کردی جائے بس وہی ’نقد‘ ہے۔ نظیرؔ اکبر آبادی کی طرح ہاتھوں ہاتھ سودا کیا جائے تو اسے ’نقدا نقد‘ کہتے ہیں۔ شاعروں کے پاس درہم و دینار تو ہوتے نہیں، وہ کوچۂ دلدار میں ’نقدِ دل‘ اور ’نقدِ جاں‘ لیے پھرتے ہیں۔ تسلیمؔ کی کفایت شعاری کو تسلیمات کہ اُن نے دونوں’ نقدیاں‘ ساتھ نہیں گنوا دیں:
ہوا نقدِ دل نذرِ ناز و ادا
فقط نقدِ جاں اور باقی رہا
ادب اور فن کی دنیا میں تخلیقات اور شہ پاروں پر رائے زنی کرنا ’نقد ونظر‘‘ کہلاتا ہے۔جو شخص کھرا کھوٹا پرکھنے کی صلاحیت رکھتاہے اُسے ’ناقد‘ کہتے ہیں۔اگر وہ کچھ زیادہ ہی پرکھنے لگے تو ’نقاد‘ بن جاتا ہے۔اصطلاحاً نقاد اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو تنقید نگار ہو۔ اپنی تحریر میں کسی تخلیق کاریا فن کارکے کھرے کھوٹے کی نشان دہی کرتا ہو۔ کھرا کھوٹا پرکھنے والا شخص شاید ہی کسی کو پسند آتا ہو۔خواہ اُسے ناقد کہیے یا نقاد۔ اب آپ سے کیا پردہ؟ہم خود اپنے ناقدین سے دور بھاگتے ہیں اور نقادوں سے تو کوسوں دور۔ بعض ضعیف العمر نقاد اتنے ماہر اور مشّاق ہوگئے ہیں کہ کالم پڑھے بغیر بھی اس پر طویل تنقید کر سکتے ہیں۔ایک مشہور کہاوت میں ’نقاد‘ کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:
’’دونوں ٹانگوں کے بغیر پیدا ہونے والا شخص، جو ٹانگیں رکھنے والوں کو دوڑ کے مقابلے میں جیتنے کے گُرسکھا تا ہے‘‘۔
سچ پوچھیے تو تنقید کا اصل حق ہمارے محدثین نے ادا کیا ہے۔حدیث کے راویوں اور اُن کی زندگی کے رویوں پر جس انداز سے نظر کی ہے، وہ اُنھیں کا حصہ تھا۔تابعین کے دور تک حدیث کے پانچ لاکھ راویوں کی خوبیاں اور خامیاں چھانٹ چھانٹ کر بیان کی جاچکی تھیں۔ محدثین نے، جو در اصل فنِ روایتِ حدیث کے ’’ناقدین‘‘ تھے،اُصول، اصطلاحات، قواعد اور ضوابط مرتب کرکے ایسا معیار قائم کردیا جس کی مدد سے کھرا اور کھوٹا، صحیح اورغلط، حقیقی اوروضعی یا قوی اور ضعیف کو الگ الگ کر نا آسان ہوگیا۔ انھوں نے تصویر کے دونوں رُخ محفوظ کردیے۔ کوئی رُخ چھپایا نہیں۔ تنقید اسی کو کہتے ہیں۔اس جرح و تعدیل کے باعث دیگرمذاہب و ملل کے مقابلے میں ہماراذخیرۂ روایات زیادہ قابلِ اعتبارہوگیا۔ ہمیں صحیح اورغلط کی پہچان سکھا دی گئی۔ ساتھ ہی’صحت‘ کی درجہ بندی بھی کردی گئی۔ جب کہ دوسروں کے ہاں غلط کے انبار میں سے درست کو ڈھونڈ نکالنا بقول شخصے اندھیرے کمرے میں گھاس کے ڈھیرسے سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔
ہمیں اپنی عظیم تنقیدی روایت کو کلیجے سے لگا کر رکھنا چاہیے۔ صحیح کو صحیح کہنا اور غلط کو غلط کہنا ہی تنقید ہے۔ خوبیاں بیان کرنا تنقید کا جزو ہے۔ خامیاں تو بے دیکھے بھی دکھائی دے جاتی ہیں۔ خوبیاں تلاش کرنے کی کوشش کیجیے۔ خوبیاں بیان کرنے سے معاشرے میں خوبیاں پروان چڑھتی ہیں۔ تنقید کے نام پر صرف خامیاں اُچھالتے پھریں گے تو معاشرے بھر میں خامیاں ہی اُچھلتی نظر آئیں گی۔
احمد حاطب صدیقی (ابونثر)
لو، اور سُنو! اب کہنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ
’’پوری قوم کا مزاج ’تنقیدی مزاج‘ ہوگیا ہے۔ جسے دیکھو بس تنقید کیے جارہا ہے۔ ہر بات پر تنقید۔ اچھی بات پر بھی تنقید اور بُری بات پر توخیر تنقید کا حق بنتا ہی ہے۔‘‘ مگر یہ بات کہنے والے خود کیا کررہے ہیں؟ تنقید کرنے والوں پر تنقید ہی تو کررہے ہیں۔
یہ تماشا دیکھ کر آج ہمارا بھی جی چاہا کہ لفظ ’تنقید‘ کے بے موقع استعمال پرجی کھول کر تنقیدکی جاوے۔ اس مفید لفظ کا غیر مفید استعمال عام ہوا جارہا ہے۔ تنقید کرنے کے جو معانی اب لیے جانے لگے ہیں وہ عَجَب ہیں: ’کسی کو بُرا بھلا کہنا، کسی کے اندر عیب تلاش کرنا، کسی کی بُرائیاں کھوجنا، کسی پر اعتراض کرنا اور کسی کے نقائص بیان کرنا‘ وغیرہ وغیرہ۔گویا تنقید کے عمل کو ایک بُرا عمل بنادیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ قابلؔ اجمیری جیسے قابل شخص کو بھی اپنے دیوانہ پن پر ’اُن‘کی طرف سے ہونے والے ’اعتراضات ‘کا ذکر کرنے کے لیے یہی لفظ سُوجھا:
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن
تمھاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے
کیا معلوم وہ کیا کریں گے؟ عجب نہیں کہ جواب میں وہ بھی کوئی شعر بک دیں۔ مگر تنقید کے موجودہ تصورات کی جو فہرست اوپر دی گئی ہے وہ سب مفاہیم لفظ ’تنقیص‘ کے ہیں۔ عزیزو! برائی بیان کرنے کو تنقید نہیں کہتے، تنقیص کہتے ہیں۔ تنقید تو اور ہی شے ہے۔
’تنقید‘ کا لفظ نکلا ہے’نَقَدَ‘ سے۔ ’نَقَدَ‘ کے لفظی معنی ہیں ’چونچ مارنا‘۔ راقم الحروف کا نہایت محققانہ خیال ہے کہ چونچ وہی مارے گا جس کے چونچ ہوگی۔ پس پرندوں ہی کو چونچ مارنے کا حق ہے۔ اور حق تو یہ ہے کہ مرغا بھی ایک پرندہ ہے۔ پَر انسانوں کا ڈالا ہوا رزق کھا کھا کر اِس طائرِ لاہوتی کی پرواز میں کوتاہی آگئی ہے۔ اب زمین سے اُڑکر بس دیوار کے اوپر تک جاتا ہے اور دیوار سے اُڑان بھر کر واپس زمین پراُتر آتا ہے، اس تمنا میں کہ زمین پر اُترتے ہی شاید وہ بھی آدمی بن جائے۔ سُنا ہے کسی روز سلیمؔ بھائی نے منہ اُٹھاکر اپنے دیوار نشیں مرغِ بیت سے کہہ دیا تھا کہ ’’اب ذرا نیچے اُتریے آدمی بن جائیے‘‘۔حاصلِ کلام یہ کہ مرغے کے پر بھی ہیں اور چونچ بھی۔ آپ نے چونچ مارتے تو دیکھا ہی ہوگا، بالخصوص بی مرغی اور اُن کے میاں مرغِ مُسَلّم کو،باہم۔ یہاں لفظ ’مُسَلّم‘ پر ہم نے ایک خاص وجہ سے خاص کر کے اِعراب لگائے گئے ہیں۔وہ خاص وجہ یہ ہے کہ ایک خاص ٹیلی وژن چینل کی ایک خاص خاتون نے ایک خاص پروگرام میں (غالباًیہ دیکھ کرکہ مرغ مسلمانوں کا من بھاتا کھاجا ہے) مرغِ مُسَلّم کو ’مرغِ مُسلِم‘ پڑھ دیا۔اس پر محترمہ قانتہ رابعہ (گوجرہ) سے کوئی بچہ پوچھ بیٹھا:
’’نانی امّاں!کیا مرغ غیر مُسلم بھی ہوتا ہے؟‘‘
بچے کو سمجھانا چاہیے کہ غیر مسلم صرف انسانوں اور جنوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کے سوا دیگر تمام مخلوقات اور اللہ تعالیٰ کی تمام تخلیقات چار و ناچار مُسلم ہیں۔ دیکھیے مرغ کا ذکر آتے ہی ہم موضوع سے بھٹک کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ بتانا یہ تھا کہ مرغا مرغی، دونوں مسلم میاں بیوی، اپنے آٹھ دس بچوں کے ساتھ، رزقِ حلال کی تلاش میں زمین پر چونچ مارتے پھرتے ہیں۔ چونچ سے زمین کریدتے ہیں اور زمین کرید کرید کر گھاس پھوس یا دیگر غیر مطلوب اشیاکو الگ کردیتے ہیں۔ پھراپنی پسند کے کیڑے مکوڑے یا دانہ دُنکا الگ نکال کر ہنسی خوشی کھا لیتے ہیں۔ تو اے بیگمات اور اے حضرات! ’’دس بچے خوش حال گھرانا‘‘ کا عالی شان نصب العین رکھنے والے اس کثیرالاولاد گھرانے کا وہ سارا عمل ’’تنقید‘‘ کہلاتا ہے کہ جس عمل میں حصولِ رزقِ حلال کے لیے وہ فرداً فرداً اپنی چونچ استعمال کرتے ہیں۔
گویا تنقید کا عمل اصلاً گھاس پھوس الگ اور دانہ دُنکا الگ کردینے کا عمل ہے۔ مدیرانِ جرائد کو اس فن میں طاق ہونا چاہیے اور ہیں بھی۔ ہم نے بہت سے مدیروں کو دیکھا ہے کہ موصولہ مضامین میں سے بڑی محنت، مشقت اور مہارت سے چن چن کر یا چگ چگ کر دانہ دُنکا الگ نکال لیتے ہیں اورگھاس پھوس چھاپ دیتے ہیں۔
اُردو میں ’نقد‘کے ایک معنی تو وہی ہیں جو فوراً آپ کے ذہن میں آگئے کہ یہی معنی نظیرؔ اکبر آبادی کے ذہن میں بھی تھے، کہتے ہیں:
کلجگ نہیں، کرجُگ ہے یہ، یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہات دے اُس ہات لے
’کَل جُگ‘ کا مطلب ہے کالا زمانہ، جس میں گناہوں کی کثرت ہو۔ لوٹ مار کا دور دورہ ہو۔ ’کَرجُگ‘ کام کرنے کا زمانہ، ادلے بدلے کا زمانہ۔ ’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘ کا دور۔ سودا نقد لینے کے لیے جو مال و زر استعمال ہوتا ہے اُسے ’نقدی‘ کہتے ہیں۔ درہم و دینار کے لیے ’نقد‘ کا لفظ اس وجہ سے بھی استعمال کیا گیا کہ ان کے لین دین کے وقت کھرا کھوٹا پرکھا جاتا ہے۔ جو رقم فوراً ادا کردی جائے بس وہی ’نقد‘ ہے۔ نظیرؔ اکبر آبادی کی طرح ہاتھوں ہاتھ سودا کیا جائے تو اسے ’نقدا نقد‘ کہتے ہیں۔ شاعروں کے پاس درہم و دینار تو ہوتے نہیں، وہ کوچۂ دلدار میں ’نقدِ دل‘ اور ’نقدِ جاں‘ لیے پھرتے ہیں۔ تسلیمؔ کی کفایت شعاری کو تسلیمات کہ اُن نے دونوں’ نقدیاں‘ ساتھ نہیں گنوا دیں:
ہوا نقدِ دل نذرِ ناز و ادا
فقط نقدِ جاں اور باقی رہا
ادب اور فن کی دنیا میں تخلیقات اور شہ پاروں پر رائے زنی کرنا ’نقد ونظر‘‘ کہلاتا ہے۔جو شخص کھرا کھوٹا پرکھنے کی صلاحیت رکھتاہے اُسے ’ناقد‘ کہتے ہیں۔اگر وہ کچھ زیادہ ہی پرکھنے لگے تو ’نقاد‘ بن جاتا ہے۔اصطلاحاً نقاد اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو تنقید نگار ہو۔ اپنی تحریر میں کسی تخلیق کاریا فن کارکے کھرے کھوٹے کی نشان دہی کرتا ہو۔ کھرا کھوٹا پرکھنے والا شخص شاید ہی کسی کو پسند آتا ہو۔خواہ اُسے ناقد کہیے یا نقاد۔ اب آپ سے کیا پردہ؟ہم خود اپنے ناقدین سے دور بھاگتے ہیں اور نقادوں سے تو کوسوں دور۔ بعض ضعیف العمر نقاد اتنے ماہر اور مشّاق ہوگئے ہیں کہ کالم پڑھے بغیر بھی اس پر طویل تنقید کر سکتے ہیں۔ایک مشہور کہاوت میں ’نقاد‘ کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:
’’دونوں ٹانگوں کے بغیر پیدا ہونے والا شخص، جو ٹانگیں رکھنے والوں کو دوڑ کے مقابلے میں جیتنے کے گُرسکھا تا ہے‘‘۔
سچ پوچھیے تو تنقید کا اصل حق ہمارے محدثین نے ادا کیا ہے۔حدیث کے راویوں اور اُن کی زندگی کے رویوں پر جس انداز سے نظر کی ہے، وہ اُنھیں کا حصہ تھا۔تابعین کے دور تک حدیث کے پانچ لاکھ راویوں کی خوبیاں اور خامیاں چھانٹ چھانٹ کر بیان کی جاچکی تھیں۔ محدثین نے، جو در اصل فنِ روایتِ حدیث کے ’’ناقدین‘‘ تھے،اُصول، اصطلاحات، قواعد اور ضوابط مرتب کرکے ایسا معیار قائم کردیا جس کی مدد سے کھرا اور کھوٹا، صحیح اورغلط، حقیقی اوروضعی یا قوی اور ضعیف کو الگ الگ کر نا آسان ہوگیا۔ انھوں نے تصویر کے دونوں رُخ محفوظ کردیے۔ کوئی رُخ چھپایا نہیں۔ تنقید اسی کو کہتے ہیں۔اس جرح و تعدیل کے باعث دیگرمذاہب و ملل کے مقابلے میں ہماراذخیرۂ روایات زیادہ قابلِ اعتبارہوگیا۔ ہمیں صحیح اورغلط کی پہچان سکھا دی گئی۔ ساتھ ہی’صحت‘ کی درجہ بندی بھی کردی گئی۔ جب کہ دوسروں کے ہاں غلط کے انبار میں سے درست کو ڈھونڈ نکالنا بقول شخصے اندھیرے کمرے میں گھاس کے ڈھیرسے سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔
ہمیں اپنی عظیم تنقیدی روایت کو کلیجے سے لگا کر رکھنا چاہیے۔ صحیح کو صحیح کہنا اور غلط کو غلط کہنا ہی تنقید ہے۔ خوبیاں بیان کرنا تنقید کا جزو ہے۔ خامیاں تو بے دیکھے بھی دکھائی دے جاتی ہیں۔ خوبیاں تلاش کرنے کی کوشش کیجیے۔ خوبیاں بیان کرنے سے معاشرے میں خوبیاں پروان چڑھتی ہیں۔ تنقید کے نام پر صرف خامیاں اُچھالتے پھریں گے تو معاشرے بھر میں خامیاں ہی اُچھلتی نظر آئیں گی۔