ایاز صدیقی ابھی تو خواب ہی دیکھا ہے شہرِ طیبہ کا

مہ جبین

محفلین
ابھی تو خواب ہی دیکھا ہے شہرِ طیبہ کا
ابھی سے حال دگرگوں ہے چشمِ بینا کا
مِری نظر میں ہے تنویرِ منزلِ مقصود
چراغِ راہِ یقیں ہے خیال آقا کا
رہِ حجاز کے ذروں میں جذب ہو جاؤں
علاج ہے یہ مِرے دردِ بے مداوا کا
نبی کے ہجر میں رونا بھی عینِ راحت ہے
" مِری نگاہ میں ہے جمع و خرج دریا کا "
دعا قبول ہوئی آپ کے وسیلے سے
شعور آپ نے بخشا ہمیں تمنا کا
کہاں اسیرِ ہوا اور کہاں ثنائے رسول
حباب خاک احاطہ کرے گا دریا کا
خیالِ شافعِ محشر محیطِ جاں ہے ایاز
نہیں ہے تشنہء تعبیر خواب فردا کا
ایاز صدیقی
 
Top