ابھی سوتے رہو بھائی ۔۔۔۔!

ملک حبیب

محفلین
ابھی سوتے رہو بھائی !
ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟
ابھی بے روزگاری نے
تمہارے در پہ دستک بھی نہیں دی ہے
تمہارے بچے کی بوتل میں ابھی تک دودھ باقی ہے
تمہارے گھر میں راشن ہے ابھی فاقے نہیں ہوتے
تمہارے اہل خانہ رات کو بھوکے نہیں سوتے
ابھی سوتے رہو بھائی ،ابھی سے کیوں پریشان ہو
تمہارا کچھ نہیں بگڑا
تمہاری والدہ ہیں محترم اب بھی
انہوں نے آج تک تھانہ نہیں دیکھا
جواں بیٹوں کی خاطر کسی سفاک تھانیدار کے
پاوٴں نہیں پکڑے
تمہاری بہن کو اب تک کوئی ”کاری“ نہیں کہتا
شریک ِزندگی کے کھلتے چہرے پر
کسی ظالم نے کب تیزاب پھینکا ہے
نہ تمہاری دختر نیک اختر نے
کوئی اجتماعی زیادتی کا کرب جھیلا ہے
ابھی سوتے رہو بھائی!
ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟
تمہارا کچھ نہیں بگڑا
بتاوٴ کیا کبھی لخت جگر اغوا ہوا کوئی
یا کبھی تم سے کسی نے کوئی تاوان مانگا ہے
دھماکے ہوتے رہتے ہیں مگر آج تک اب تک
تمہارا بھائی مسجد سے بخیروعافیت گھر کو پہنچتا ہے
بھتیجا اب بھی گلیوں میں کرکٹ کھیلا کرتا ہے
ابھی تک تو کسی نے بھی اسے الٹا نہیں ٹانگا
نہ اس کی لاش گلیوں میں گھسیٹی ہے
ابھی سوتے رہو بھائی،
ابھی سے کیوں پریشاں ہو
تمہارا کچھ نہیں بگڑا
ابھی اس ظلم کے عفریت میں، تم میں ذرا سا فاصلہ ہے
ابھی تم تک پہنچنے میں ذرا سا وقت باقی ہے
ابھی سوتے رہو بھائی، ابھی کچھ دیر باقی ہے

کلام شکیل جعفری
 
Top