کاشفی
محفلین
تعارفِ شاعر: سہیل ثاقب کی شاعری کی ابتدا سعودی عرب (دمام) میں معروف شاعر محترم ذکاء صدیقی مرحوم کے حلقہء تلامذہ سے ہوئی۔ اردو شاعری سے والہانہ عشق اور محترم ذکاء صدیقی جیسے کہنہ مشق شاعر کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سہیل ثاقب نے بہت کم عرصہ میں سعودی عرب کے ادبی منظر میں اپنا مقام بنا لیا۔۔ سہیل ثاقب کی شاعری کی خوشبو سعودی عرب کے ریگستان سے ہوتی ہوئی جب اس کے اپنے شہر کراچی پہنچی تو یہاں بھی اس کا استقبال کرنے والے کم نہ تھے۔ اور اس اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ 1980 کی دہائی میںجب کراچی میں جبر و استبداد اور ظلم و ستم کی نئی تاریخ لکھی جارہی تھی تو سہیل ثاقب نے اس درد کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اپنی شاعری کے ذریعہ احتجاج کی ایک موثر آواز بھی بلند کی۔۔۔۔سہیل ثاقب بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور ان کی غزل زندگی کے تمام رنگوں کا احاطہ کرتی ہے، سفر، دربدری، ہجرت، فاصلہ، منزل، رہگزر، اور اسی قبیل کے اشارے علامتیں اور استعارے ثاقب کی غزلوں کے مضامینِ تازہ میں ہزیمت، پسپائی اور قنوطیت کی نہیں بلکہ حوصلہ مندرجائیت کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ سہیل ثاقب کا پہلا مجموعہء کلام "تیری میری آنکھوں میں" 2003ء میںشائع ہوا اور اس میں شامل غزلیں اس بات کی دلیل مہیا کرتی ہیں کہ ثاقب تخلیقی سفر پر رواں دواں ایک ایسا مسافر ہے جس کے سامنے روشن منزل کے واضع امکانات موجود ہیں۔
غزل
(سہیل ثاقب - کراچی پاکستان)
ابھی منظر بدلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
مجھے گر کر سنبھلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
ابھی پوری طرح جاگا نہیں میں خواب غفلت سے
طبیعت کے سنبھلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
دیا بجھنے نہ دینا تم کسی بھی طور سے دل کا
ہوا کا رخ بدلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
نبردِ جنگ جو راتوں سے ہیں ان سے یہ کہہ دینا
کہ اب سورج نکلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
ابھی دستِ دعا کے پھولوں میں خوشبو نہیں آئی
ہوا کےساتھ چلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
ابھی یہ رنگِ محفل جوش پر آیا نہیںثاقب
ابھی دل کو مچلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
(بشکریہ : معظم سعید - کراچی پاکستان)
(سہیل ثاقب - کراچی پاکستان)
ابھی منظر بدلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
مجھے گر کر سنبھلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
ابھی پوری طرح جاگا نہیں میں خواب غفلت سے
طبیعت کے سنبھلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
دیا بجھنے نہ دینا تم کسی بھی طور سے دل کا
ہوا کا رخ بدلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
نبردِ جنگ جو راتوں سے ہیں ان سے یہ کہہ دینا
کہ اب سورج نکلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
ابھی دستِ دعا کے پھولوں میں خوشبو نہیں آئی
ہوا کےساتھ چلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
ابھی یہ رنگِ محفل جوش پر آیا نہیںثاقب
ابھی دل کو مچلنے میں ذرا سی دیر باقی ہے
(بشکریہ : معظم سعید - کراچی پاکستان)