طارق شاہ
محفلین
ابھی کُچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں
وہ گِنتے ہیں بیٹھے ہماری خطائیں
نہیں آتے پل کو جو پہروں یہاں تھے
اثر کھو چُکی ہیں سبھی اِلتجائیں
زمانہ ہُوا چھوڑ آئے وطن میں
نظر ڈُھونڈتی ہے اب اُن کی ادائیں
مِرے خونِ ناحق پہ اب وہ تُلے ہیں
جو تھکتے نہ تھے لے کے میری بَلائیں
خَلِشؔ تم زمیں کے، وہ ہیں آسماں پر
بَھلا کیسے سُنتے تمھاری صدائیں
شفیق خلؔش
آخری تدوین: