اب آنکھ کو نہ لذّت غم کی سزا ملے۔۔۔۔ غزل اصلاح کے لیے

ایک غزل اصلاح کے لیے پیش ہے .. یہ غزل
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
کے وزن پر ہے ...
----------------------------------
اب آنکھ کو نہ لذّت غم کی سزا ملے
بوسیدہ ہم کو دامن پندار چاہئیے

پہنا سکے قبائے ِ ملامت، جو ہم کو روز
ساتھی اک ایسا صاحب کردار چاہئیے

یادوں کی اب یہ ضد ہے کہ ہر شام کو انہیں
آنکھوں میں کھیلتی شبِ آزار چاہئیے

دستِ قضا، تو بڑھ کے مرا ہاتھ تھام لے
گر راہِ حق میں تجھ کو سزاوار چاہئیے

چہرے تمام یاروں کے، نظروں میں پھر گئے
کچھ مار ِ آستین کو بھی معیار چاہئیے

اے حسنِ کم سخن ، جو کرے مجھ سے تو کلام
پھر یہ گلا نہ ہوگا کہ غمخوار چاہئیے

کاشف کرے حکایت دل کو اگر بیاں
غم خوار ایک، پھر پس ِ دیوار چاہئیے


-----------------------------------------
شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
خوب غزل ہے
دستِ قضا، تو بڑھ کے مرا ہاتھ تھام لے
گر راہِ حق میں تجھ کو سزاوار چاہئیے
۔۔یہاں سزاوار سے مراد؟؟
’گر راہ‘ میں ’ر‘ کی تکرار پر بھی غور کریں

چہرے تمام یاروں کے، نظروں میں پھر گئے
کچھ مار ِ آستین کو بھی معیار چاہئیے
مارِ آستیں ہونا چاہئے۔ یا اگر آستین مکمل لانا ہو، تو آگے ’بھی‘ کی ضرورت نہیں۔
 
بہت بہت شکریہ سر۔ نوازش جناب کی۔
جی یہ مارِ آستیں ہی ہے، ٹایپنگ کی غلطی ہے۔
"’گر راہ‘ میں ’ر‘ کی تکرار پر بھی غور کریں"
میں تصحیح کے بعد حاضر ہوتا ہوں۔ انشا اللہ۔
 

الف عین

لائبریرین
ترکیب "ایثارِ سرمد" یا سرمدِ ایثار؟
اگر کاشف سرمدِ ایثار ہی ترکیب بنانا چاہ رہے ہیں تو ان کو اجازت ہے۔ میں نے یہ سوچا کہ سرمد کو خود ہی ایثار کی علامت بنائی گئی ہے۔ اب یہ احساس ہوا کہ ممکن ہے کہ ایثار سرمد ہی سمجھ رہے ہوں وہ۔
روانی کی کمی اسی مصرع میں محسوس ہوتی ہے، بطور خاص’گر‘ کی وجہ سے۔
 
اگر کاشف سرمدِ ایثار ہی ترکیب بنانا چاہ رہے ہیں تو ان کو اجازت ہے۔ میں نے یہ سوچا کہ سرمد کو خود ہی ایثار کی علامت بنائی گئی ہے۔ اب یہ احساس ہوا کہ ممکن ہے کہ ایثار سرمد ہی سمجھ رہے ہوں وہ۔
روانی کی کمی اسی مصرع میں محسوس ہوتی ہے، بطور خاص’گر‘ کی وجہ سے۔
جی استاد محترم۔ ایسا ہی ہے۔ کیا درست ہے؟
"گر" کے لیے سوچتا ہوں کچھ۔
 
Top