کاشف اسرار احمد
محفلین
ایک غزل اصلاح کے لیے پیش ہے .. یہ غزل
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
کے وزن پر ہے ...
----------------------------------
اب آنکھ کو نہ لذّت غم کی سزا ملے
بوسیدہ ہم کو دامن پندار چاہئیے
پہنا سکے قبائے ِ ملامت، جو ہم کو روز
ساتھی اک ایسا صاحب کردار چاہئیے
یادوں کی اب یہ ضد ہے کہ ہر شام کو انہیں
آنکھوں میں کھیلتی شبِ آزار چاہئیے
دستِ قضا، تو بڑھ کے مرا ہاتھ تھام لے
گر راہِ حق میں تجھ کو سزاوار چاہئیے
چہرے تمام یاروں کے، نظروں میں پھر گئے
کچھ مار ِ آستین کو بھی معیار چاہئیے
اے حسنِ کم سخن ، جو کرے مجھ سے تو کلام
پھر یہ گلا نہ ہوگا کہ غمخوار چاہئیے
کاشف کرے حکایت دل کو اگر بیاں
غم خوار ایک، پھر پس ِ دیوار چاہئیے
-----------------------------------------
شکریہ۔
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
کے وزن پر ہے ...
----------------------------------
اب آنکھ کو نہ لذّت غم کی سزا ملے
بوسیدہ ہم کو دامن پندار چاہئیے
پہنا سکے قبائے ِ ملامت، جو ہم کو روز
ساتھی اک ایسا صاحب کردار چاہئیے
یادوں کی اب یہ ضد ہے کہ ہر شام کو انہیں
آنکھوں میں کھیلتی شبِ آزار چاہئیے
دستِ قضا، تو بڑھ کے مرا ہاتھ تھام لے
گر راہِ حق میں تجھ کو سزاوار چاہئیے
چہرے تمام یاروں کے، نظروں میں پھر گئے
کچھ مار ِ آستین کو بھی معیار چاہئیے
اے حسنِ کم سخن ، جو کرے مجھ سے تو کلام
پھر یہ گلا نہ ہوگا کہ غمخوار چاہئیے
کاشف کرے حکایت دل کو اگر بیاں
غم خوار ایک، پھر پس ِ دیوار چاہئیے
-----------------------------------------
شکریہ۔