محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
الف عین ، سرور عالم راز ، یاسر شاہ ، ظہیراحمدظہیر
اب اِدھر کو جو آ نکلتا ہے
کوئی بھٹکا ہوا نکلتا ہے
میرے گھر کو جو راہ جاتا تھا
اب وہ جنگل کو جا نکلتا ہے
(کیا راہ کو مذکر باندھا جا سکتا ہے؟ میں نے کچھ اپنی طرف سے تحقیق کی تو مجھے غالب کا ایک شعر ملا۔
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا)
باندھ لوں میں امید جس بت سے
یا
باندھ لیتا ہوں جس سے امیدیں
ایک دن وہ خدا نکلتا ہے
میرے جیسے ہزاروں لوگوں میں
کوئی ایک آپ سا نکلتا ہے
کب اسے میری یاد آتی ہے
دل دکھانے کو آ نکلتا ہے
تیرے لب کا ہر ایک لفظ، مرے
اک مرض کی دوا نکلتا ہے
کس لیے اب کریدتے ہو تم
پیاسی دھرتی سے کیا نکلتا ہے
درد/زخم، تیری لگائی چوٹوں کا
دوسروں سے جدا/سوا نکلتا ہے
میں نے چھلکا دیا ہے ظرف اس کا
دیکھیے اب کہ کیا نکلتا ہے
کون اے عندلیبِ باغِ حجاز
تجھ سا نغمہ سرا نکلتا ہے
کوئی بھٹکا ہوا نکلتا ہے
میرے گھر کو جو راہ جاتا تھا
اب وہ جنگل کو جا نکلتا ہے
(کیا راہ کو مذکر باندھا جا سکتا ہے؟ میں نے کچھ اپنی طرف سے تحقیق کی تو مجھے غالب کا ایک شعر ملا۔
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا)
باندھ لوں میں امید جس بت سے
یا
باندھ لیتا ہوں جس سے امیدیں
ایک دن وہ خدا نکلتا ہے
میرے جیسے ہزاروں لوگوں میں
کوئی ایک آپ سا نکلتا ہے
کب اسے میری یاد آتی ہے
دل دکھانے کو آ نکلتا ہے
تیرے لب کا ہر ایک لفظ، مرے
اک مرض کی دوا نکلتا ہے
کس لیے اب کریدتے ہو تم
پیاسی دھرتی سے کیا نکلتا ہے
درد/زخم، تیری لگائی چوٹوں کا
دوسروں سے جدا/سوا نکلتا ہے
میں نے چھلکا دیا ہے ظرف اس کا
دیکھیے اب کہ کیا نکلتا ہے
کون اے عندلیبِ باغِ حجاز
تجھ سا نغمہ سرا نکلتا ہے
آخری تدوین: