یاسر شاہ
محفلین
عزیزم روفی بھائی !
السلام علیکم
آپ کی غزل جس دن آپ نے پوسٹ کی تھی ،میں نے پڑھ لی تھی-میری نا قص رائے میں، اس غزل کے اکثر اشعار واردات قلبی کا نتیجا محسوس ہوتے ہیں -یہی وجہ ہے کہ باوجود زبان و بیان کی اغلاط کے کہ جو اکثر اشعار میں تھیں غزل ایک کشش رکھتی ہے - جیسے جیسے آپ اس میں تبدیلیاں کرتے رہیں گے وہ کیفیات عنقا ہوتی جائیں گے لہٰذا بہت ضروری ہے کہ زبان و بیان کے مسائل کا حل جلد از جلد نکال لیں تاکہ بعد میں کیفیات سے خالی الفاظ کی تقرری نہ کرنی پڑے -
خوب -ما شاء الله
--------------
باندھتا ہوں امید جس بت سے
ایک دن وہ خدا نکلتا ہے
امید جب آپ نے بت سے باندھ لی تو گویا اسے خدا جانا بعد میں "خدا نکلتا ہے " کا سوال ہی کیا -بقول اقبال :
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
پھر اس مصرع میں ایک باریک بات ہے سمجھنے والی :
ایک دن وہ خدا نکلتا ہے
یہاں مجھے لگتا ہے آپ کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ جس بت سے امید باندھتا ہوں ایک دن وہ خدا بن بیٹھتا ہے لیکن ردیف کی قید نے مطلب ہی بدل دیا اور وہ یہ کہ جس بت سے امید باندھتا ہوں ایک دن انکشاف ہوتا ہے کہ وہ خدا ہے -نعوذ باللہ ایسا تو ظاہر ہے آپ نے کہنا نہ چاہا ہو گا -
:نکلا: کی معنویت کو سمجھنے کے لیے ایک شعر دیکھیے :
پردہ اٹھ جانے کا آخر یہ نتیجا نکلا
جس کو ہم بیٹا سمجھتے تھے بھتیجا نکلا
اکبر الہ آبادی
کس لیے اب کریدتے ہو تم
پیاسی دھرتی سے کیا نکلتا ہے
کریدتے تو زخم ہیں یا راکھ -زمین یا دھرتی تو کھودی جاتی ہے -کسی ثقہ شاعر کے ہاں مستعمل ہو تو ضرور بتائیے گا -
میں نے چھلکا دیا ہے ظرف اس کا
دیکھیے اب کہ کیا نکلتا ہے
جب آپ ظرف چھلکا ہی چکے ہیں یعنی برتن سے باہر لے ہی آئے ہیں تو اس کے بعد یہ کہنا کہ :دیکھیے اب کہ کیا نکلتا ہے : چہ معنی دارد ؟
کون اے عندلیبِ باغِ حجاز
تجھ سا نغمہ سرا نکلتا ہے
یہاں ردیف : نکلتا ہے : نبھی نہیں یعنی اس کی کوئی تک ہی نہیں بنتی -
آپ یاد کر لیتے ہیں -جزاک اللہ خیر -
یاسر
السلام علیکم
آپ کی غزل جس دن آپ نے پوسٹ کی تھی ،میں نے پڑھ لی تھی-میری نا قص رائے میں، اس غزل کے اکثر اشعار واردات قلبی کا نتیجا محسوس ہوتے ہیں -یہی وجہ ہے کہ باوجود زبان و بیان کی اغلاط کے کہ جو اکثر اشعار میں تھیں غزل ایک کشش رکھتی ہے - جیسے جیسے آپ اس میں تبدیلیاں کرتے رہیں گے وہ کیفیات عنقا ہوتی جائیں گے لہٰذا بہت ضروری ہے کہ زبان و بیان کے مسائل کا حل جلد از جلد نکال لیں تاکہ بعد میں کیفیات سے خالی الفاظ کی تقرری نہ کرنی پڑے -
اب اِدھر کو جو آ نکلتا ہے
کوئی بھٹکا ہوا نکلتا ہے
راستہ، گھر جو میرے جاتا تھا
اب وہ جنگل کو جا نکلتا ہے
یاد آتی ہے کب اسے میری
دل دکھانے کو آ نکلتا ہے
خوب -ما شاء الله
--------------
باندھتا ہوں امید جس بت سے
ایک دن وہ خدا نکلتا ہے
امید جب آپ نے بت سے باندھ لی تو گویا اسے خدا جانا بعد میں "خدا نکلتا ہے " کا سوال ہی کیا -بقول اقبال :
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
پھر اس مصرع میں ایک باریک بات ہے سمجھنے والی :
ایک دن وہ خدا نکلتا ہے
یہاں مجھے لگتا ہے آپ کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ جس بت سے امید باندھتا ہوں ایک دن وہ خدا بن بیٹھتا ہے لیکن ردیف کی قید نے مطلب ہی بدل دیا اور وہ یہ کہ جس بت سے امید باندھتا ہوں ایک دن انکشاف ہوتا ہے کہ وہ خدا ہے -نعوذ باللہ ایسا تو ظاہر ہے آپ نے کہنا نہ چاہا ہو گا -
:نکلا: کی معنویت کو سمجھنے کے لیے ایک شعر دیکھیے :
پردہ اٹھ جانے کا آخر یہ نتیجا نکلا
جس کو ہم بیٹا سمجھتے تھے بھتیجا نکلا
اکبر الہ آبادی
کس لیے اب کریدتے ہو تم
پیاسی دھرتی سے کیا نکلتا ہے
کریدتے تو زخم ہیں یا راکھ -زمین یا دھرتی تو کھودی جاتی ہے -کسی ثقہ شاعر کے ہاں مستعمل ہو تو ضرور بتائیے گا -
میں نے چھلکا دیا ہے ظرف اس کا
دیکھیے اب کہ کیا نکلتا ہے
جب آپ ظرف چھلکا ہی چکے ہیں یعنی برتن سے باہر لے ہی آئے ہیں تو اس کے بعد یہ کہنا کہ :دیکھیے اب کہ کیا نکلتا ہے : چہ معنی دارد ؟
کون اے عندلیبِ باغِ حجاز
تجھ سا نغمہ سرا نکلتا ہے
یہاں ردیف : نکلتا ہے : نبھی نہیں یعنی اس کی کوئی تک ہی نہیں بنتی -
آپ یاد کر لیتے ہیں -جزاک اللہ خیر -
یاسر