طارق شاہ
محفلین
غزل
فراق گورکھپوری
اب اکثر چُپ چُپ سے رہے ہيں، يونہی کبھی لب کھولے ہيں
پہلے فراق کو ديکھا ہوتا، اب تو بہت کم بولے ہيں
دن ميں ہم کو ديکھنے والو، اپنے اپنے ہيں اوقات
جاؤ نہ تم ان خُشک آنکھوں پر، ہم راتوں کو رو لے ہيں
فِطرت ميری عِشق و محبّت، قِسمت ميری تنہائی
کہنے کی نوبت ہی نہ آئی، ہم بھی کِسو کے ہو لے ہيں
باغ ميں وہ خواب آورعالم موجِ صبا کے اِشاروں پر
ڈالی ڈالی نورس پتّے سہس سہج جب ڈولے ہيں
اُف وہ لبوں پر موجِ تبسّم جيسے کروٹيں ليں، کونديں
ہائے وہ عالمِ جُنبشِ مژگاں جب فِتنے پر تولے ہيں
اُن راتوں کو حريمِ ناز کا اِک عالم ہووے ہے نديم
خلوت ميں وہ نرم انگلياں بندِ قبا جب کھولے ہيں
غم کا فسانہ سُننے والو، آخر شب آرام کرو
کل يہ کہانی پھر چھيڑيں گے، ہم بھی ذرا اب سو لے ہيں
ہم لوگ اب تو پرائے سے ہيں، کچھ تو بتاؤ حالِ فراق
اب تو تمہيں کو پيار کرے ہيں، اب تو تمہيں سے بولے ہيں
فراق گورکھپوری