شاہد شاہنواز
لائبریرین
اب تو جیتے ہیں مر بھی سکتے تھے
ہم جہاں سے گزر بھی سکتے تھے
جتنے ٹکڑے تھے جڑ گئے لیکن
ٹوٹ کر ہم بکھر بھی سکتے تھے
اُس کے چھونے سے ایک لمحے کو
رنگ سارے نکھر بھی سکتے تھے
بن کے بارش سب آب کے قطرے
آسماں سے اُتر بھی سکتے تھے
تم جو ہمت ذرا سی کر لیتے
جو ڈراتے ہیں ڈر بھی سکتے تھے
غیر لوگوں نے آ کے کوشش کی
کر تو سب ہم سفر بھی سکتے تھے
بس ضرورت تھی تھوڑی محنت کی
جو نہ سدھرے سدھر بھی سکتے تھے
مٹھیوں میں تھے برف کے ٹکڑے
بھر تو سب رہگزر بھی سکتے تھے
بات کرنے سے زخم جلنے لگے
بات کرنے سے بھر بھی سکتے تھے
اِس جہاں میں جو لوگ اے شاہد
کچھ نہیں کرتے، کر بھی سکتے تھے
برائے توجہ ۔۔۔ محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔
ہم جہاں سے گزر بھی سکتے تھے
جتنے ٹکڑے تھے جڑ گئے لیکن
ٹوٹ کر ہم بکھر بھی سکتے تھے
اُس کے چھونے سے ایک لمحے کو
رنگ سارے نکھر بھی سکتے تھے
بن کے بارش سب آب کے قطرے
آسماں سے اُتر بھی سکتے تھے
تم جو ہمت ذرا سی کر لیتے
جو ڈراتے ہیں ڈر بھی سکتے تھے
غیر لوگوں نے آ کے کوشش کی
کر تو سب ہم سفر بھی سکتے تھے
بس ضرورت تھی تھوڑی محنت کی
جو نہ سدھرے سدھر بھی سکتے تھے
مٹھیوں میں تھے برف کے ٹکڑے
بھر تو سب رہگزر بھی سکتے تھے
بات کرنے سے زخم جلنے لگے
بات کرنے سے بھر بھی سکتے تھے
اِس جہاں میں جو لوگ اے شاہد
کچھ نہیں کرتے، کر بھی سکتے تھے
برائے توجہ ۔۔۔ محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔