نوید ناظم
محفلین
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف ایسا نہیں ہے کہ تُو ہی نہیں
اب تو دل میں کوئی آرزو ہی نہیں
یہ بہاریں بھی ہم کو خزاں جیسی ہیں
ان بہاروں کی اب جستجو ہی نہیں
ہم عدم سے جو آئیں ہیں کچھ راز ہے
مدعا صرف یہ رنگ و بُو ہی نہیں
کیوں سمجھتے نہیں وہ مِری بات کو
خیر اُن سے تو اب گفتگو ہی نہیں
لوگ پڑھ کے جنازہ مِرا گھر گئے
دیکھیے اُن کا اب تک وضو ہی نہیں
اک شکن بھی نہیں، ان کا دامن ہے یہ
ایک اپنا گریباں، رفو ہی نہیں
میکشوں کی طبعیت ذرا اور ہے
کیا رہیں جس جگہ پر سبو ہی نہیں
لُو نوید ان کی محفل میں پھر سے گیا
جبکہ اس کی وہاں آبرو ہی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف ایسا نہیں ہے کہ تُو ہی نہیں
اب تو دل میں کوئی آرزو ہی نہیں
یہ بہاریں بھی ہم کو خزاں جیسی ہیں
ان بہاروں کی اب جستجو ہی نہیں
ہم عدم سے جو آئیں ہیں کچھ راز ہے
مدعا صرف یہ رنگ و بُو ہی نہیں
کیوں سمجھتے نہیں وہ مِری بات کو
خیر اُن سے تو اب گفتگو ہی نہیں
لوگ پڑھ کے جنازہ مِرا گھر گئے
دیکھیے اُن کا اب تک وضو ہی نہیں
اک شکن بھی نہیں، ان کا دامن ہے یہ
ایک اپنا گریباں، رفو ہی نہیں
میکشوں کی طبعیت ذرا اور ہے
کیا رہیں جس جگہ پر سبو ہی نہیں
لُو نوید ان کی محفل میں پھر سے گیا
جبکہ اس کی وہاں آبرو ہی نہیں