اب تو فرقت میں اطمینان سا ہے

آداب دوستو،

بہت عرصے بعد یہاں کچھ پوسٹ کر رہی ہوں. ہوتا یوں ہے کہ کبھی کبھار دو چار لوگوں کی رائے مختلف ہوتی ہے کچھ غزلوں کو لے کر۔ ایک کہتا ہے اس کی تقطیع یوں ہے ایک کہتا ہے یوں ہے۔ جو تھوڑا بہت خود آتا ہے اس پر بھی شک ہونے لگتا ہے :)

ایسی ہی ایک غزل یہاں پوسٹ کر رہی ہوں۔ وزن کے بارے میں رہنمائی چاہیئے۔

بہت شکریہ. :)



اب تو فرقت میں اطمینان سا ہے
کل جو الفت تھی اب گمان سا ہے

تم کہ جس کو درندہ کہتے ہو
دیکھنے میں تو وہ انسان سا ہے

زندگی میں کوئی کمی تو نہیں
پھر بھی کچھ ہے کہ جو ارمان سا ہے

جس کو ایماں تھا دعا پر اپنی
اپنی حالت پہ کیوں حیران سا ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
وعلیکم آداب

اشعار کے مضامین بہت اچھے ہیں بس الفاظ کی نشست و برخاست میں معمولی تدوین سے بحر میں لایا جا سکتا ہے

مثلاً

فاعلاتن فَعِلاتن فِعْلن

آپ کہتے ہیں درندہ جس کو
دیکھنے میں تو وہ انسان سا ہے

زیست میں کوئی کمی تو نہیں ہے
پھر بھی کچھ ہے کہ جو ارمان سا ہے

جس کو ایماں تھا دعا پر اپنی
اپنے ہی حال پہ حیران سا ہے

وزن میں گڑبڑ تو ہے مزید یہ کہ اطمینان ، انسان ارمان اور حیران کے ساتھ گمان قافیہ نہیں لایا جا سکتا کیونکہ انسان وغیرہ مفعول کے وزن پر ہیں جبکہ گمان فعول کے وزن پر ہے۔ تاہم مطلع کو کم و بیش انہی الفاظ میں اس بحر میں نہیں لایا جا سکتا:)

نوٹ مذکور آراء صرف اوزان کے حوالے سے ہیں:)
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اصل مین یہاں دو بحریں خلط ملط ہو گئی ہیں۔
فاعلاتن مفاعلن فعلن
اور
فالاتن فعلاتن فعلن، جیسا کہ ابن رضا نے تجویز کیا ہے۔
مطلع پہلی بحر میں ہے لیکن پھر بھی ’اطمینان‘ محض ’اطمنان‘ تقطیع ہوتا ہے جو درست نہیں۔
وہ مصرعے بھی اسی بحر میں ہیں جن کو زبن رضا نے فاعلاتن فعلاتن فعلن میں درست کر دیا ہے۔
 
Top