الف نظامی
لائبریرین
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
۔ 12 نومبر ، 2009
امیر نوازنیازی
جس روز فارسٹ اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہو کر ہم نے محکمہ جنگلات میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں عین اسی روز فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملک میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی۔ چنانچہ ہماری سروس کے ابتدائی دس سال انکی حکمرانی میں گزرے اور قطع نظر ملکی سیاست اور بے جا فوجی مداخلت کے سود وزیاں، ہم یہاں پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ اس دوران ملک میں صنعتی ترقی کے علاوہ زراعت اور جنگلات کو جو توسیع و ترقی ملی وہ اپنی مثال آپ تھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ملک امیر محمد خان نواب کالا باغ گورنر مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کے گورنر تھے جو بے پناہ انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہونے کے علاوہ زراعت اور جنگلات کے بذات خود بے حد شیدائی تھے جس کی وجہ سے ان شعبوں میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے اور یہ محکمے خصوصی طور پر ان کی توجہ کے مرکز بنے رہے۔ جہاں تک جنگلات اور شجرکاری کا تعلق ہے ان کی اس توجہ سے صوبے بھر کی سڑکیں اور نہریں، قطار اندر قطار درختوں سے بھر گئیں۔ پنجاب میں تھل کا علاقہ جہاں نیا نیا تھل کینالز سسٹم کا اجراء ہوا تھا سبزہ زاروں اور لہلہاتے درختوں سے اٹ گیا اور یہی درخت اور شجر کاری تھل کی آباد کاری کا سبب بنے۔ اس زمانے میں آپ جس سڑک سے گزرتے یوں لگتا جیسے آپ درختوں کی بنی سبز سرنگوں سے گزر رہے ہوں لیکن ملک امیر محمد خان کے چلے جانے کے بعد ان درختوں کو کوئی دوسرا امیر محمد میسر نہ آ سکا اور کوئی بھی آنے والی حکومت ان پر خاطر خواہ توجہ نہ دے سکی۔ تو یہ درخت رفتہ رفتہ اس جہان فانی سے رخصت ہوتے چلے گئے بلکہ رخصت کر دیئے گئے اور پھر گزشتہ چند سالوں میں ان پر افتادیہ آن پڑی کہ اچانک کسی ان جانی بیماری کے حملہ سے یہ بیک وقت قطار در قطار باجماعت خشک ہوتے چلے گئے۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق اور یوں لکڑ مافیا کی عید ہو گئی کہ کروڑوں کی مالیت کے یہ خشک اور مردہ درخت ان کی دسترس میں آ گئے اور محکمہ جنگلات، ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کے مصداق دیکھتا رہ گیا۔ نہ وہ اس بیماری کا کوئی تدارک کر سکا، نہ ان قیمتی خشک درختوں کو سنبھال سکا اور نہ انکی جگہ نئے درخت لگا سکا اور صورت حال اب یہ ہے کہ ان نہروں اور سڑکوں پر جہاں کبھی سرسبز چھت آور درخت لہلہاتے تھے آج وہاں تباہیوں اور ویرانیوں کا راج ہے۔ اب بھی جگہ جگہ بہت سے بچے کھچے، ٹنڈ منڈ درخت جو مافیا کی دست درازیوں سے بچ سکے موقع پر موجود نظر آتے ہیں جن کو محکمہ اپنے ضابطوں کے مطابق موقع پر نیلام کر کے قومی خزانے میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے لیکن نہیں کر رہا تو کیوں نہیں کر رہا۔ اس کا جواب یا جواز ان کے پاس ہو گا۔ ہماری نظر میں یہ اور کچھ نہیں تو ’’ایک شرمناک بلکہ جرم ناک غفلت ہے جس کا وزیراعلیٰ پنجاب کو نوٹس لینا چاہئے بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ کبھی ان کا یہاں سے گزر ہو سکے، تو یہ صورت حال کو خودبخود ان پر آشکار ہو جائے گی۔ ہم یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس زمانے کے ہم خودشاہد ہیں کہ ملک امیر محمد خان جب گورنر تھے تو وہ سیکورٹی تحفظات کے باوجود ہمیشہ بذریعہ سڑک سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور پھر صوبے بھر میں وہ جہاں سے گزر جاتے وہاں کی حالت اور حالات خود بخود سنور جاتے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف بھی کبھی ایسا کر سکیں تو ہمیں امید ہے کہ وہ امیر محمد ثانی بن سکتے ہیں۔ ورنہ یہاں کئی گورنر اور وزیراعلیٰ آئے اور انہوں نے اپنے تیئیں امیر محمد بننے کی کوشش کی لیکن ایسا آج تک نہ ہو سکا۔ ملک امیر محمد خان بے شک ایک سخت گیر اور انتظام پرور شخص تھے لیکن ان کی ان قومی خدمات کی وجہ سے لوگ آج بھی انہیں اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں۔ بقول اقبال؎
یونان، مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
۔ 12 نومبر ، 2009
امیر نوازنیازی
جس روز فارسٹ اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہو کر ہم نے محکمہ جنگلات میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں عین اسی روز فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملک میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی۔ چنانچہ ہماری سروس کے ابتدائی دس سال انکی حکمرانی میں گزرے اور قطع نظر ملکی سیاست اور بے جا فوجی مداخلت کے سود وزیاں، ہم یہاں پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ اس دوران ملک میں صنعتی ترقی کے علاوہ زراعت اور جنگلات کو جو توسیع و ترقی ملی وہ اپنی مثال آپ تھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ملک امیر محمد خان نواب کالا باغ گورنر مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کے گورنر تھے جو بے پناہ انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہونے کے علاوہ زراعت اور جنگلات کے بذات خود بے حد شیدائی تھے جس کی وجہ سے ان شعبوں میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے اور یہ محکمے خصوصی طور پر ان کی توجہ کے مرکز بنے رہے۔ جہاں تک جنگلات اور شجرکاری کا تعلق ہے ان کی اس توجہ سے صوبے بھر کی سڑکیں اور نہریں، قطار اندر قطار درختوں سے بھر گئیں۔ پنجاب میں تھل کا علاقہ جہاں نیا نیا تھل کینالز سسٹم کا اجراء ہوا تھا سبزہ زاروں اور لہلہاتے درختوں سے اٹ گیا اور یہی درخت اور شجر کاری تھل کی آباد کاری کا سبب بنے۔ اس زمانے میں آپ جس سڑک سے گزرتے یوں لگتا جیسے آپ درختوں کی بنی سبز سرنگوں سے گزر رہے ہوں لیکن ملک امیر محمد خان کے چلے جانے کے بعد ان درختوں کو کوئی دوسرا امیر محمد میسر نہ آ سکا اور کوئی بھی آنے والی حکومت ان پر خاطر خواہ توجہ نہ دے سکی۔ تو یہ درخت رفتہ رفتہ اس جہان فانی سے رخصت ہوتے چلے گئے بلکہ رخصت کر دیئے گئے اور پھر گزشتہ چند سالوں میں ان پر افتادیہ آن پڑی کہ اچانک کسی ان جانی بیماری کے حملہ سے یہ بیک وقت قطار در قطار باجماعت خشک ہوتے چلے گئے۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق اور یوں لکڑ مافیا کی عید ہو گئی کہ کروڑوں کی مالیت کے یہ خشک اور مردہ درخت ان کی دسترس میں آ گئے اور محکمہ جنگلات، ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کے مصداق دیکھتا رہ گیا۔ نہ وہ اس بیماری کا کوئی تدارک کر سکا، نہ ان قیمتی خشک درختوں کو سنبھال سکا اور نہ انکی جگہ نئے درخت لگا سکا اور صورت حال اب یہ ہے کہ ان نہروں اور سڑکوں پر جہاں کبھی سرسبز چھت آور درخت لہلہاتے تھے آج وہاں تباہیوں اور ویرانیوں کا راج ہے۔ اب بھی جگہ جگہ بہت سے بچے کھچے، ٹنڈ منڈ درخت جو مافیا کی دست درازیوں سے بچ سکے موقع پر موجود نظر آتے ہیں جن کو محکمہ اپنے ضابطوں کے مطابق موقع پر نیلام کر کے قومی خزانے میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے لیکن نہیں کر رہا تو کیوں نہیں کر رہا۔ اس کا جواب یا جواز ان کے پاس ہو گا۔ ہماری نظر میں یہ اور کچھ نہیں تو ’’ایک شرمناک بلکہ جرم ناک غفلت ہے جس کا وزیراعلیٰ پنجاب کو نوٹس لینا چاہئے بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ کبھی ان کا یہاں سے گزر ہو سکے، تو یہ صورت حال کو خودبخود ان پر آشکار ہو جائے گی۔ ہم یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس زمانے کے ہم خودشاہد ہیں کہ ملک امیر محمد خان جب گورنر تھے تو وہ سیکورٹی تحفظات کے باوجود ہمیشہ بذریعہ سڑک سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور پھر صوبے بھر میں وہ جہاں سے گزر جاتے وہاں کی حالت اور حالات خود بخود سنور جاتے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف بھی کبھی ایسا کر سکیں تو ہمیں امید ہے کہ وہ امیر محمد ثانی بن سکتے ہیں۔ ورنہ یہاں کئی گورنر اور وزیراعلیٰ آئے اور انہوں نے اپنے تیئیں امیر محمد بننے کی کوشش کی لیکن ایسا آج تک نہ ہو سکا۔ ملک امیر محمد خان بے شک ایک سخت گیر اور انتظام پرور شخص تھے لیکن ان کی ان قومی خدمات کی وجہ سے لوگ آج بھی انہیں اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں۔ بقول اقبال؎
یونان، مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا