اب زرِ جوہر پندار ٹھکانے سے لگا

چشم نمناک کرے دل کو الم سے خالی
درد کے بہنے کی رفتار فزوں ہے یوں ہے

پہلا مصرع خلاف واقعہ ہے۔ رونے سے الم جاتا نہیں رہتا، تازہ ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد پر جو بات بنائی گئی وہ بھی جاتی رہی۔ "درد کا بہنا" اس کو کسی طور قابلِ قبول ہی نہیں بہت خوبصورت انداز میں بھی لایا جا سکتا تھا۔ کوئی تعلی پیدا کی جاتی، کوئی تعلیل بنائی جاتی تو یہ درد کا بہنا ایک خوبصورت ترکیب بن جاتا:
وا، تہی دامنی تری اے دل
درد آنکھوں سے بہہ گیا سارا
۔۔۔ وا : افسوس! یہاں دردِ دل کو دولت اور دل کا سرمایہ کہا گیا ہے۔ اس حوالے سے اس کا بہہ جانا، خوبصورت تعلی بنتی ہے۔
 
مسکِن خام خیالی ہے مرا دل، سو ابھی
آمدِ یار کی امّیدِ جنوں ہے، یوں ہے
اس شعر کو نکھارا جا سکتا ہے۔

اب زرِ جوہر پندار ٹھکانے سے لگا
سامنے یار کے سر میرا نگوں ہے، یوں ہے
ٹھکانے لگنا محاورہ ہے، ٹھکانے سے لگنا میرے علم میں نہیں۔ یا تو جوہرِ پندار کہئے یا زرِ پندار کہئے۔
 
منصفو! حق کے طرفدار بنو اب نہ ڈرو
دیکھو باطل کی ریاکاری فسوں ہے، یوں ہے
پہلا مصرع ۔۔ طرفدار اور پاسدار میں فرق ہوتا ہے۔ تقاضا ہونا چاہئے کہ منصفو! حق کی پاسداری کرو۔ طرفداری تو ویسے ہی انصاف سے متصادم ہوتی ہے۔
دوسرے میں مصرعے میں ۔۔ دیکھو: واو گرا دیا، ریاکاری: یاے آخر گرا دیا، اور جو مصرع بالصوت ادا ہوا وہ ہے:
دیکھ باطل کی ریاکار فسوں ہے یوں ہے
دیکھ اور ریاکار اپنی جگہ پر مکمل لفظ ہیں اور اپنا اپنا مفہوم بھی رکھتے ہیں۔ ایسی صورت ذوقِ سلیم پر گراں گزرتی ہے۔
 

فرحان عباس

محفلین
گڈ بہت خوب .
ویسےمیرے خیال میں کسی بڑے شاعر کی زمین استعمال کرنے سے آپ کتنا ہی اچھا شعر کہہ دو مگر قاری کو اتنا متاثر نہیں کرتا.
 
ایک تکنیکی (بلکہ شاید نظریاتی نکتہ ) یہ بھی ملحوظ رکھا جائے کہ قناعتیں بہر حال ہر حاجت کو محیط ہوتی ہیں ۔ البتہ یہ "خواہشیں" ہو سکتی ہیں جنہیں پابند کیا جاتا ہے ۔
پہلے "خواہشیں" ہی استعمال کیا تھا عاطف بھائی ۔۔۔۔

استاد محترم اب یہ شکل کیسی ہے ؟
اک تذبذب سا مرے دل کے دروں ہے، یوں ہے
سایہ ہے زلفوں کا پر جیسے فسوں ہے یوں ہے

خواہشیں بندِ قناعت سے چھڑایں تن من
پابہ زنجیر ہیں، پر جوشِ جنوں ہے یوں ہے
 
محنت و شوق ِسے ہوں رنگ نمایاں فن کے
وا کرے کُھل کے، کلی کے جو دروں ہے یوں ہے
فن کے رنگ نمایاں ہوں کیا، صاحب! ہوتے ہی محنت سے ہیں۔ یہی تو میں عرض کیا کرتا ہوں۔ علامہ صاحب نے کیا خوب کہا ہے:
رنگ ہو کہ خشت و سنگ، چنگ ہو کہ حرف و صوت
معجزہء فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
اتنے بڑے اور مشہور شعر کے ہوتے ہوئے وہی بات کرنی مقصود ہو تو پھر اس کو کوئی پہلو نیا دیجئے، مثلاً: وہ خونِ جگر یہاں دستیاب نہیں وغیرہ۔
 
چشم نمناک کرے دل کو الم سے خالی
درد کے بہنے کی رفتار فزوں ہے یوں ہے

پہلا مصرع خلاف واقعہ ہے۔ رونے سے الم جاتا نہیں رہتا، تازہ ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد پر جو بات بنائی گئی وہ بھی جاتی رہی۔ "درد کا بہنا" اس کو کسی طور قابلِ قبول ہی نہیں بہت خوبصورت انداز میں بھی لایا جا سکتا تھا۔ کوئی تعلی پیدا کی جاتی، کوئی تعلیل بنائی جاتی تو یہ درد کا بہنا ایک خوبصورت ترکیب بن جاتا:
۔
استاد محترم ۔۔ کیا رو دھو کر دل ہلکا محسوس نہیں کرتا؟ اور کیا درد و الم میں کمی محسوس نہیں ہوتی؟
اگر ایسا نہیں تو ہم روتے ہی کیوں ہیں؟
یہاں میں آپ کا نکتہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔
میری کم عقلی !:unsure:
 
حاجتیں بندِ قناعت سے چھڑایں تن من
پا بہ زنجیروں میں اک جوشِ جنوں ہے یوں ہے
اس پر بات ہو چکی

اعلیٰ ظرفی نے کیا دل جو کشادہ کاشف
ہجر کے آنے سے بے چین سکوں ہے یوں ہے
اعلیٰ ظرفی اور کشادہ دلی ایک ہی بات تو ہے، ایک دوسرے کا سبب یا نتیجہ کیوں کر ہو گئیں؟ دوسرے اعلیٰ کی بندش میں الف مقصورہ کو گرانا کم از کم مجھے قابلِ قبول نہیں۔ سکون اور بے چینی دونوں کیفیات ہیں اور دونوں بہ یک وقت واقع نہیں ہو سکتیں، ایک کا عدم دوسری کا وجود ہے۔ "سکون کا بے چین ہونا" میرے نزدیک بے معنی ہے۔ آپ جانئے، آپ کی کاوش جانے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
پہلے "خواہشیں" ہی استعمال کیا تھا عاطف بھائی ۔۔۔۔

استاد محترم اب یہ شکل کیسی ہے ؟
اک تذبذب سا مرے دل کے دروں ہے، یوں ہے
سایہ ہے زلفوں کا پر جیسے فسوں ہے یوں ہے

خواہشیں بندِ قناعت سے چھڑایں تن من
پابہ زنجیر ہیں، پر جوشِ جنوں ہے یوں ہے
یہاں تن من اگرچہ بر محل ہے لیکن "چھڑانے" کے ساتھ "دامن " شاید زیادہ مناسب رہے۔ایک رائے
 
پہلے "خواہشیں" ہی استعمال کیا تھا عاطف بھائی ۔۔۔۔

استاد محترم اب یہ شکل کیسی ہے ؟
اک تذبذب سا مرے دل کے دروں ہے، یوں ہے
سایہ ہے زلفوں کا پر جیسے فسوں ہے یوں ہے

خواہشیں بندِ قناعت سے چھڑایں تن من
پابہ زنجیر ہیں، پر جوشِ جنوں ہے یوں ہے

شاعری میں ہاتھ پر سرسوں جمانے والی بات نہیں ہوا کرتی۔ میری وہ گزارش آپ کو یاد ہو گی کہ شعر میں درستی کا عمل کبھی کبھی برسوں بعد بھی ہوا کرتا ہے۔ میں نے ایک اور مقام پر گزارش کی تھی کہ اصلاح یا درستی میں لفظ کے بدلے لفظ والا طریقہ عام طور پر مؤثر نہیں ہوا کرتا، بسا اوقات پورے مصرعے کو ادھر ادھر کرتے ہیں، کبھی مصرع نیا کہنا پڑتا ہے۔ آپ کے لفظوں کو آپ کے مطالب کے تحت ہونا چاہئے۔ قاری تو ظاہر ہے، آپ کے مطالب کو آپ کے لفظوں کے وسیلے سے پائے گا۔
 
استاد محترم ۔۔ کیا رو دھو کر دل ہلکا محسوس نہیں کرتا؟ اور کیا درد و الم میں کمی محسوس نہیں ہوتی؟
اگر ایسا نہیں تو ہم روتے ہی کیوں ہیں؟
یہاں میں آپ کا نکتہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔
میری کم عقلی !:unsure:
اپنا تجربہ آپ کے اس ارشاد کی توثیق نہیں کرتا۔ ہم روتے کیوں ہیں؟ اگر ہم ارادی طور پر روتے ہیں تو پھر یہ سوال واقعی ہے! رونا آتا ہے بھائی اور روکے نہیں رکتا؛ ہم تو اس کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسانی نفسیات یہی ہے۔ خود کو کہیں اور بہلاتے ہیں، چاہے کوئی خود فریبی والا عمل ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے تو رو کر کبھی ہلکا محسوس نہیں ہوا، بلکہ طبیعت پہروں بجھی بجھی سی رہتی ہے، پھر سنبھلتے سنبھلتے سنبھل جاتی ہے۔ وہی بہلاوے والا عمل! ۔۔ خیر! یہ لمبی باتیں ہیں، میں تو بیان میں تجربے کو تخیل پر ترجیح دیتا ہوں۔

اللہ کے حضور رونے کی بات، بات ہی اور ہے؛ اس کو عمومی مظاہر سے الگ رکھئے گا۔
 
اب تک کی آخری بات۔ املاء اور ہجوں کی غلطی ایک شاعر کے کہے میں؟ یہ بات حلق سے نہیں اترتی۔ شاعر کو تو لفظوں سے کام لینا ہوتا ہے، گویا باسکٹ بال کا کوئی کھلاڑی گیند کو گھماتا پھراتا اچھالتا پھینکتا ہے۔ لفظوں کی اصل اور ساختیات سے واقف ہونا ادیب کی اولین ضرورت ہے۔ کتابت کی غلطی اور چیز ہے، املاء کی غلطی اور چیز ہے۔

ایک لفظ "واضح" کی بات جناب محمد خلیل الرحمٰن نے کی، میں اس کو مزید واضح کر دوں۔
و ض ح ۔۔ یہ مادے کے حروف ہیں۔ (معروف الفاظ: وضاحت، توضیح، واضح، مواضحات) اس میں ایک بات، خیال، تصور وغیرہ کو کھولا جاتا ہے۔ جسے اجاگر کرنا کہتے ہیں۔
و ض ع ۔۔ یہ دوسرا مادہ ہے (معروف الفاظ: وضع، موضوع، تواضع، متواضع، موضع) اس میں ایک بات، خیال، تصور، صورت، شکل، چیز پہلے سے موجود دوسرے مظاہر سے لے کر اس کو کوئی نئی صورت دیتے ہیں۔

یہاں کوئی "اہلِ زبان" ہمیں "عجمی" کہہ بھی دے تو کیا ہے :bee: ۔۔ ایک اور بات نوٹ کی تھی، وہ بھی واضح کر دوں:
جائیں، سنائیں، ہوائیں، بلائیں، ادائیں؛ ان کی عبارت میں ہمزہ شامل ہے، اس کو منہا نہیں کیا جا سکتا۔
 
شاعری میں ہاتھ پر سرسوں جمانے والی بات نہیں ہوا کرتی۔ میری وہ گزارش آپ کو یاد ہو گی کہ شعر میں درستی کا عمل کبھی کبھی برسوں بعد بھی ہوا کرتا ہے۔ میں نے ایک اور مقام پر گزارش کی تھی کہ اصلاح یا درستی میں لفظ کے بدلے لفظ والا طریقہ عام طور پر مؤثر نہیں ہوا کرتا، بسا اوقات پورے مصرعے کو ادھر ادھر کرتے ہیں، کبھی مصرع نیا کہنا پڑتا ہے۔ آپ کے لفظوں کو آپ کے مطالب کے تحت ہونا چاہئے۔ قاری تو ظاہر ہے، آپ کے مطالب کو آپ کے لفظوں کے وسیلے سے پائے گا۔
جی بہت بہتر ۔۔
آپ کی ایک اور بات یاد آئی "شاعری میں جلدی کیسی؟" ۔۔
اب اس غزل کی بخیہء گری کچھ وقت کے بعد ہی کروں تو بہتر ہو شاید۔۔۔
جزاک اللہ استاد محترم ۔۔
 
استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔
چشم نمناک، نہ کر دل یہ الم سے خالی!
درد کے بہنے کی رفتار فزوں ہے یوں ہے

گھر ہے ہر خام خیالی کا، مرا دل ، سو یہاں
آمدِ یار کی امّیدِ جنوں ہے، یوں ہے

ان دو اشعار میں اب کچھ بہتری آئی جناب؟
 
Top