مہ جبین
محفلین
اب زمانے سے کوئی شکوہء بیداد نہیں
اب سوائے درِ اقدس مجھے کچھ یاد نہیں
اللہ اللہ مدینے کے سفر کا عالم
دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں
عالمِ حرص و ہوَس میں غمِ آقا کے سوا
سرخوشی کی کوئی صورت دلِ ناشاد نہیں
جب سے سرکار نے بخشا ہے شعورِ توحید
جز خدا کعبہء دل میں کوئی آباد نہیں
صدمہء ہجر سے دل محوِ فغاں ہے آقا !
یہ الگ بات کہ لب پر مِرے فریاد نہیں
آپ وہ مہرِ مجسم کہ نہ بھولے مجھ کو
میں وہ کمبخت جسے رسمِ وفا یاد نہیں
میری روداد کا عنوان ہے عشقِ سرکار
جس میں یہ وصف نہیں وہ مِری روداد نہیں
میرے کردار کی تعمیر کے بانی ہیں حضور
موجہء آبِ رواں پر مِری بنیاد نہیں
للہ الحمد !حزیں ہیں میرے استاد ایاز
ہائے وہ شخص کہ جس کا کوئی استاد نہیں
ایاز صدیقی