خاور بلال
محفلین
جب دشمن راج کرے ہر سو
بہنوں کی چادر چھن جائے
ماؤں کی گود اجڑ جائے
اور عزت خاک میں گڑ جائے
حرفوں سے زخم کو کیا سینا
اب سسک سسک کر کیا جینا؟
جب ہر سو اندھیارے میں بھی
سارے گھر شیش محل ٹھہریں
اور شیش محل کے سب باسی
بس اپنے لیے ہی جیتے ہوں
سب تن کی بھوک مٹاتے ہوں
سب من کی پیاس بجھاتے ہوں
اور ایسے میں، احساس نہ ہو
جنگل میں سونے والوں کا
سوئی ہوئی ملت کے غم میں
دل جگر سے، آنکھوں کے خوں سے
زخموں کو دھونے والوں کا
احساس نہ ہو، کچھ پاس نہ ہو
گردش ہو فقط تحریروں کی
نقشوں کی اور لکیروں کی
نرم و نازک قالینوں پر
وزراء کی اور سفیروں کی
تقریروں سے جب بات چلے
اور آہ واشک پر تھم جائے
پر دل سے خالی ہو سینہ
تب سسک سسک کر کیا جینا؟
جب میری ملت کے بیٹے
گمنام مجاہد، پردیسی
ماؤں کے جگر کے یہ ٹکڑے
سب روکھی سوکھی کھاتے ہوں
بندوق سے جی بہلاتے ہوں
اور شام و سحر ہر محفل میں
خیبر کی مثالیں لاتے ہوں
سعد و سلمان، عبیدہ کا
طلحہ، وقاص، حذیفہ کا
وہ درسِ وفا دہراتے ہوں
صفہ کی یاد دلاتے ہوں
اللہ کا رنگ چڑھاتے ہوں
اور رب کے مبارک ناموں پر
پھر تازہ جنگ جماتے ہوں
دن دشمن سے ٹکراتے ہوں
اپنے پیاروں سے دور بہت
شب خون سے لوٹ کرآتے ہوں
پھر تھکے تھکے سے قدم لیے
بوسیدہ لحافوں کو اوڑھے
غاروں میں آگ جلاتے ہوں
پھر خیموں میں سوجاتے ہوں
اور اپنے لیے ان خیموں تک
دو گام بھی جانا مشکل ہو
یہ فرض نبھانا مشکل ہو
گو اپنے لیے ہوں کام بہت
سینے میں ارمان بہت
مستقبل کے امکان بہت
جب ایسی حالت ہوجائے
جب حب رسالت کھوجائے
جب بینا ٹھہریں، نابینا
تب سسک سسک کر کیا جینا؟
اے کاش کہ کوئی جنگ کرے
مظلوموں کی مقہوروں کی
دہلیز پہ کوئی پہرہ دے
ملت کی آنکھوں کے تارو
ہر افق افق پر پھیلے ہوئے
اے روشن و درخشاں، مہہ پارو
مجبور ہو کیا؟
معذور ہو کیا؟
آنکھوں میں شرر باقی ہیں ناں
پاؤں سے اجازت کیا لوگے
جب ڈاکو گھر میں گھس آئیں
ماؤں سے اجازت کیا لوگے
اب جنگ کرو!
خابوں میں اپنے رنگ بھرو
پیروں کو گرد آلود کرو
یوں ایماں کی بہبود کرو
جس دیس کوآخر جانا ہے
تم وہیں اکٹھا مال کرو
جنت کے دریچوں پر پہنچو
ماؤں کا استقبال کرو
یوں ان کا دور ملال کرو
اے چاند ستارو، مہہ پارو
کچھ کر ڈالو!
ملت کی تجوری خالی ہے
دل، جگر، جواہر بھر ڈالو
سوچوں سے بجھی ہے آگ کبھی؟
گر جراءت ہوتو، سر ڈالو!
نعروں کی رہی برسات بہت
تقریروں کی حد تک بات بہت
تحریروں کی سوغات بہت
اب بیت چکی ہے رات بہت
اب سحرِ تمنا کر ڈالو!
اے چاند ستارو، مہہ پارو
جب دین محمد پر ہر صبح
اک خون کی بارش ہوتی ہو
اک کلمہ پڑھنے والوں پر
جب بوسنیا میں پہرے ہوں
اور حضرت بل کی راحوں پر
ہندو فوجی آ ٹھہرے ہوں
جب مسجد اقصیٰ روتی ہو
اور اپنے سیاست دانوں میں
ہڈی پہ لڑائی ہوتی ہو
ہر سو نفرت کی آگ جلے
چاہت کی جگہ لے لے کینہ
تب سسک سسک کر کیا جینا؟
اس مصحف قرآں میں لوگو!
گر سورہ توبہ پڑھتے ہو
کس طور بھلا پھر ممکن ہے
ذلت کا سودا کرتے ہو
وقت آیا کہ
نوخیزوں کا اعلان سنو!
اب نورِ بغاوت پھیل چکا
قدموں پر پہرے ناممکن
یہ خاب سنہرے، ناممکن
ان لاشوں کی باراتوں میں
خوشیوں کے سہرے ناممکن
اس ہستی میں
مستقبل صرف اسلام کا ہے
اس بستی میں
ترجیح وہی فرمان کہ جو
قرآن کا ہے، فرقان کا ہے
مقبول وہی ایمان کہ جو
صدیق کا ہے، شہداء کا ہے
غازی اہلِ ایمان کا ہے
وہ جن کی راہ پر چلنے کی
دن رات دعائیں کرتے ہو
گر سورہ فاتحہ پڑھتے ہو
اس مصحف قرآں میں لوگو!
یہ عہد کیاتھا شہداء نے
جب جام شہادت کا ہے پینا
تو تڑپ تڑپ کر کیا جینا؟
اب ہونہ سکے گا ہم سے یہ
پیغامِ محمد رُل جائے
ناممکن ہے یہ ناممکن
جو پاک کتاب میں لکھا ہے
وہ حرف جہاد اب دھل جائے
ناممکن ہے یہ ناممکن
اب کھوٹے سکے لایعنی
اب زورِ خطابت بے معنی
اب ہوگا مقابل آئینہ
اب سسک سسک کر کیا جینا؟
تم جاکے ہمالہ کے دامن
اس کے فرازوں سے پوچھو
تم سر بفلک کہساروں کے
باسی شہبازوں سے پوچھو
برفاب محاذوں سے پوچھو
سربستہ رازوں سے پوچھو
تم جنت کی خوشبو ڈھونڈو
اسکے دروازوں کا پوچھو
اور
ہوکے ہمالہ کے دامن
جبل احد کو گر نکلو
تو حمزہ کی اور طلحہ کی
مصعب کی روحوں سے پوچھو
تم کیا پوچھو؟
تم یہ پوچھو
یہ فرطِ سعادت کیا شے ہے
کیا چیز شہادت ہوتی ہے؟
وہ سارے یہ فرمائیں گے
سب ایک ہی راز بتائیں گے
بس اک نکتہ سمجھائیں گے
تم جس پر ایماں لائے ہو
جب اسکا بلاوا آئے تو
تم جس کے لئے ایماں لائے
دل جس کی یاد میں للچائے
فردوسِ بریں پانے کیلئے
اس جنت تک جانے کیلئے
کیا اسکے سوا ہوگا زینہ؟
شہداء نے تڑپ کر عرض کیا
اب سسک سسک کر کیا جینا؟
(احسن عزیز)
بہنوں کی چادر چھن جائے
ماؤں کی گود اجڑ جائے
اور عزت خاک میں گڑ جائے
حرفوں سے زخم کو کیا سینا
اب سسک سسک کر کیا جینا؟
جب ہر سو اندھیارے میں بھی
سارے گھر شیش محل ٹھہریں
اور شیش محل کے سب باسی
بس اپنے لیے ہی جیتے ہوں
سب تن کی بھوک مٹاتے ہوں
سب من کی پیاس بجھاتے ہوں
اور ایسے میں، احساس نہ ہو
جنگل میں سونے والوں کا
سوئی ہوئی ملت کے غم میں
دل جگر سے، آنکھوں کے خوں سے
زخموں کو دھونے والوں کا
احساس نہ ہو، کچھ پاس نہ ہو
گردش ہو فقط تحریروں کی
نقشوں کی اور لکیروں کی
نرم و نازک قالینوں پر
وزراء کی اور سفیروں کی
تقریروں سے جب بات چلے
اور آہ واشک پر تھم جائے
پر دل سے خالی ہو سینہ
تب سسک سسک کر کیا جینا؟
جب میری ملت کے بیٹے
گمنام مجاہد، پردیسی
ماؤں کے جگر کے یہ ٹکڑے
سب روکھی سوکھی کھاتے ہوں
بندوق سے جی بہلاتے ہوں
اور شام و سحر ہر محفل میں
خیبر کی مثالیں لاتے ہوں
سعد و سلمان، عبیدہ کا
طلحہ، وقاص، حذیفہ کا
وہ درسِ وفا دہراتے ہوں
صفہ کی یاد دلاتے ہوں
اللہ کا رنگ چڑھاتے ہوں
اور رب کے مبارک ناموں پر
پھر تازہ جنگ جماتے ہوں
دن دشمن سے ٹکراتے ہوں
اپنے پیاروں سے دور بہت
شب خون سے لوٹ کرآتے ہوں
پھر تھکے تھکے سے قدم لیے
بوسیدہ لحافوں کو اوڑھے
غاروں میں آگ جلاتے ہوں
پھر خیموں میں سوجاتے ہوں
اور اپنے لیے ان خیموں تک
دو گام بھی جانا مشکل ہو
یہ فرض نبھانا مشکل ہو
گو اپنے لیے ہوں کام بہت
سینے میں ارمان بہت
مستقبل کے امکان بہت
جب ایسی حالت ہوجائے
جب حب رسالت کھوجائے
جب بینا ٹھہریں، نابینا
تب سسک سسک کر کیا جینا؟
اے کاش کہ کوئی جنگ کرے
مظلوموں کی مقہوروں کی
دہلیز پہ کوئی پہرہ دے
ملت کی آنکھوں کے تارو
ہر افق افق پر پھیلے ہوئے
اے روشن و درخشاں، مہہ پارو
مجبور ہو کیا؟
معذور ہو کیا؟
آنکھوں میں شرر باقی ہیں ناں
پاؤں سے اجازت کیا لوگے
جب ڈاکو گھر میں گھس آئیں
ماؤں سے اجازت کیا لوگے
اب جنگ کرو!
خابوں میں اپنے رنگ بھرو
پیروں کو گرد آلود کرو
یوں ایماں کی بہبود کرو
جس دیس کوآخر جانا ہے
تم وہیں اکٹھا مال کرو
جنت کے دریچوں پر پہنچو
ماؤں کا استقبال کرو
یوں ان کا دور ملال کرو
اے چاند ستارو، مہہ پارو
کچھ کر ڈالو!
ملت کی تجوری خالی ہے
دل، جگر، جواہر بھر ڈالو
سوچوں سے بجھی ہے آگ کبھی؟
گر جراءت ہوتو، سر ڈالو!
نعروں کی رہی برسات بہت
تقریروں کی حد تک بات بہت
تحریروں کی سوغات بہت
اب بیت چکی ہے رات بہت
اب سحرِ تمنا کر ڈالو!
اے چاند ستارو، مہہ پارو
جب دین محمد پر ہر صبح
اک خون کی بارش ہوتی ہو
اک کلمہ پڑھنے والوں پر
جب بوسنیا میں پہرے ہوں
اور حضرت بل کی راحوں پر
ہندو فوجی آ ٹھہرے ہوں
جب مسجد اقصیٰ روتی ہو
اور اپنے سیاست دانوں میں
ہڈی پہ لڑائی ہوتی ہو
ہر سو نفرت کی آگ جلے
چاہت کی جگہ لے لے کینہ
تب سسک سسک کر کیا جینا؟
اس مصحف قرآں میں لوگو!
گر سورہ توبہ پڑھتے ہو
کس طور بھلا پھر ممکن ہے
ذلت کا سودا کرتے ہو
وقت آیا کہ
نوخیزوں کا اعلان سنو!
اب نورِ بغاوت پھیل چکا
قدموں پر پہرے ناممکن
یہ خاب سنہرے، ناممکن
ان لاشوں کی باراتوں میں
خوشیوں کے سہرے ناممکن
اس ہستی میں
مستقبل صرف اسلام کا ہے
اس بستی میں
ترجیح وہی فرمان کہ جو
قرآن کا ہے، فرقان کا ہے
مقبول وہی ایمان کہ جو
صدیق کا ہے، شہداء کا ہے
غازی اہلِ ایمان کا ہے
وہ جن کی راہ پر چلنے کی
دن رات دعائیں کرتے ہو
گر سورہ فاتحہ پڑھتے ہو
اس مصحف قرآں میں لوگو!
یہ عہد کیاتھا شہداء نے
جب جام شہادت کا ہے پینا
تو تڑپ تڑپ کر کیا جینا؟
اب ہونہ سکے گا ہم سے یہ
پیغامِ محمد رُل جائے
ناممکن ہے یہ ناممکن
جو پاک کتاب میں لکھا ہے
وہ حرف جہاد اب دھل جائے
ناممکن ہے یہ ناممکن
اب کھوٹے سکے لایعنی
اب زورِ خطابت بے معنی
اب ہوگا مقابل آئینہ
اب سسک سسک کر کیا جینا؟
تم جاکے ہمالہ کے دامن
اس کے فرازوں سے پوچھو
تم سر بفلک کہساروں کے
باسی شہبازوں سے پوچھو
برفاب محاذوں سے پوچھو
سربستہ رازوں سے پوچھو
تم جنت کی خوشبو ڈھونڈو
اسکے دروازوں کا پوچھو
اور
ہوکے ہمالہ کے دامن
جبل احد کو گر نکلو
تو حمزہ کی اور طلحہ کی
مصعب کی روحوں سے پوچھو
تم کیا پوچھو؟
تم یہ پوچھو
یہ فرطِ سعادت کیا شے ہے
کیا چیز شہادت ہوتی ہے؟
وہ سارے یہ فرمائیں گے
سب ایک ہی راز بتائیں گے
بس اک نکتہ سمجھائیں گے
تم جس پر ایماں لائے ہو
جب اسکا بلاوا آئے تو
تم جس کے لئے ایماں لائے
دل جس کی یاد میں للچائے
فردوسِ بریں پانے کیلئے
اس جنت تک جانے کیلئے
کیا اسکے سوا ہوگا زینہ؟
شہداء نے تڑپ کر عرض کیا
اب سسک سسک کر کیا جینا؟
(احسن عزیز)