حبیب جالب اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے مری جاں: حبیب جالب

محمد امین

لائبریرین
برگِ‌آوارہ سے لی گئی۔


اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں،
اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے مری جاں،

اب تذکرہء خندہء گل بار ہے جی پر،
جاں وقفِ غمِ گریہء شبنم ہے مری جاں،

رخ پر ترے بکھری ہوئی یہ زلفِ‌سیہ تاب،
تصویر پریشانیِ عالم ہے مری جاں،

یہ کیا کہ تجھے بھی ہے زمانے سے شکایت،
یہ کیا کہ تری آنکھ بھی پر نم ہے مری جاں،

ہم سادہ دلوں پر یہ شبِ غم کا تسلط،
مایوس نہ ہو اور کوئی دم ہے مری جاں،

یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے،
ہر شخص ترے شہر کا برہم ہے مری جاں،

اے نزہتِ مہتاب ترا غم ہے مری زیست،
اے نازشِ خورشید ترا غم ہے مری جاں۔
 
Top