فراز اب وہ کہتے ہیں تم کوئی چارہ کرو

غدیر زھرا

لائبریرین
شیخ منبر پہ نا معتبر ہو چکا​
رند بدنام کوئے خرابات میں​
فاصلہ ہو تو ہو فرق کچھ بھی نہیں​
فتوہ دیں میں ہو اور کفر کی بات میں​
مرگ انبوہ بھی جشن ساماں نہیں
اب کوئی قتل گاہوں میں جائے تو کیا
کب سے توقیر لالہ قبائی گئی
کوئی اپنے لہو میں نہائے تو کیا
واہ۔ عمدہ کلام منتخب کیا ہے غدیر زھرا ۔ بہت شکریہ :) ۔​
اچھا اچھا کلام شیئر کرتی رہیں۔ :)
بے حد شکریہ پسندیدگی کا :)
انشاءاللہ :)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
مرگ انبوہ بھی جشن ساماں نہیں​
اب کوئی قتل گاہوں میں جائے تو کیا​
کب سے توقیر لالہ قبائی گئی​
کوئی اپنے لہو میں نہائے تو کیا​
بہت خوب غدیر​
واقعی بہت ہی اعلیٰ نظم ہے۔ افسوس کے حسبِ حال بھی ہے۔

بہت بہت شکریہ اس خوبصورت شراکت کا۔
واہ واہ کیا ہی خوبصورت نظم انتخاب کی ہے
بہت شکریہ تمام احباب کا :)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
بہت اعلیٰ انتخاب ہے غدیر بہنا !(y)
۔۔۔ ۔۔
ان دو مصرعوں کو دوبارہ دیکھ لیں
صحن گلزار خاشاک کا ڈھیر​
حرف عیسیٰ نہ صور اسرافیل ہے​
پہلے میں شاید آخر میں "ہے" بھی آئے گا؛ اور دوسرے میں صرف "سرافیل" ہو گا، اسرافیل مکمل طور پر کسی طرح اس بحر میں نہیں آ سکتا :)
شکریہ نشاندہی کے لیے :) جزاک اللہ :)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
فراز کی اس نظم کے عنوان (اب وہ کہتے ہیں تم کوئی چارہ کرو) کو پڑھ فیض کی نظم کا عنوان (تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں) یاد آ جاتا ہے
بالکل :)

تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!
جس میں رکھا نہیں ہے کسی نے قدم
کوئی اترا نہ میداں میں ، دشمن نہ ہم
کوئی صف بن نہ پائی ، نہ کوئی علم
منتشرِ دوستوں کو صدا دے سکا
اجنبی دُشمنوں کا پتا دے سکا
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چُکی!
جس میں رکھا نہیں ہم نے اب تک قدم

تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں
جسم خستہ ہے ، ہاتھوں میں یارا نہیں
اپنے بس کا نہیں بارِ سنگ ستم
بارِ سنگِ ستم ، بار کہسار غم
جس کو چُھوکر سبھی اک طرف ہوگئے
بات کی بات میں ذی شرف ہوگئے
دوستو، کوئے جاناں کی نا مہرباں
خاک پر اپنے روشن لہو کی بہار
اب نہ آئے گی کیا؟ اب کِھلے گا نہ کیا
اس کفِ نازنیں پر کوئی لالہ زار؟
اس حزیں خامشی میں نہ لَوٹے گا کیا
شورِ آوازِ حق ، نعرئہ گیر و دار
شوق کا امتحاں جو ہُوا سو ہُوا
جسم و جاں کا زیاں جو ہُوا سو ہُوا
سُود سے پیشتر ہے زیاں اور بھی
دوستو ماتمِ جسم وجاں اور بھی
اور بھی تلخ تر امتحاں اور بھی
 

غدیر زھرا

لائبریرین

فاتح

لائبریرین
بالکل :)

تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!
جس میں رکھا نہیں ہے کسی نے قدم
کوئی اترا نہ میداں میں ، دشمن نہ ہم
کوئی صف بن نہ پائی ، نہ کوئی علم
منتشرِ دوستوں کو صدا دے سکا
اجنبی دُشمنوں کا پتا دے سکا
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چُکی!
جس میں رکھا نہیں ہم نے اب تک قدم

تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں
جسم خستہ ہے ، ہاتھوں میں یارا نہیں
اپنے بس کا نہیں بارِ سنگ ستم
بارِ سنگِ ستم ، بار کہسار غم
جس کو چُھوکر سبھی اک طرف ہوگئے
بات کی بات میں ذی شرف ہوگئے
دوستو، کوئے جاناں کی نا مہرباں
خاک پر اپنے روشن لہو کی بہار
اب نہ آئے گی کیا؟ اب کِھلے گا نہ کیا
اس کفِ نازنیں پر کوئی لالہ زار؟
اس حزیں خامشی میں نہ لَوٹے گا کیا
شورِ آوازِ حق ، نعرئہ گیر و دار
شوق کا امتحاں جو ہُوا سو ہُوا
جسم و جاں کا زیاں جو ہُوا سو ہُوا
سُود سے پیشتر ہے زیاں اور بھی
دوستو ماتمِ جسم وجاں اور بھی
اور بھی تلخ تر امتحاں اور بھی
واہ واہ لطف دو چند ہو گیا
 

عاطف بٹ

محفلین
اب کوئی کس طرح قم بہ اذنی کہے
اب کہ جب شہر کا شہر سنسان ہے
حرفِ عیسیٰ نہ صورِ سرافیل ہے
حشر کا دن قیامت کا میدان ہے
واہ، بہت خوب!​
 
Top