غدیر زھرا
لائبریرین
شکریہلاجواب انتخاب۔ شراکت کے لیئے شکریہ۔
شکریہلاجواب انتخاب۔ شراکت کے لیئے شکریہ۔
بے حد شکریہ پسندیدگی کاشیخ منبر پہ نا معتبر ہو چکارند بدنام کوئے خرابات میںفاصلہ ہو تو ہو فرق کچھ بھی نہیںفتوہ دیں میں ہو اور کفر کی بات میںمرگ انبوہ بھی جشن ساماں نہیں
اب کوئی قتل گاہوں میں جائے تو کیا
کب سے توقیر لالہ قبائی گئی
کوئی اپنے لہو میں نہائے تو کیا
واہ۔ عمدہ کلام منتخب کیا ہے غدیر زھرا ۔ بہت شکریہ ۔اچھا اچھا کلام شیئر کرتی رہیں۔
مرگ انبوہ بھی جشن ساماں نہیںاب کوئی قتل گاہوں میں جائے تو کیاکب سے توقیر لالہ قبائی گئیکوئی اپنے لہو میں نہائے تو کیابہت خوب غدیر
واقعی بہت ہی اعلیٰ نظم ہے۔ افسوس کے حسبِ حال بھی ہے۔
بہت بہت شکریہ اس خوبصورت شراکت کا۔
بہت شکریہ تمام احباب کاواہ واہ کیا ہی خوبصورت نظم انتخاب کی ہے
شکریہ نشاندہی کے لیے جزاک اللہبہت اعلیٰ انتخاب ہے غدیر بہنا !
۔۔۔ ۔۔
ان دو مصرعوں کو دوبارہ دیکھ لیں
صحن گلزار خاشاک کا ڈھیرحرف عیسیٰ نہ صور اسرافیل ہےپہلے میں شاید آخر میں "ہے" بھی آئے گا؛ اور دوسرے میں صرف "سرافیل" ہو گا، اسرافیل مکمل طور پر کسی طرح اس بحر میں نہیں آ سکتا
بالکلفراز کی اس نظم کے عنوان (اب وہ کہتے ہیں تم کوئی چارہ کرو) کو پڑھ فیض کی نظم کا عنوان (تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں) یاد آ جاتا ہے
تشکر -جزاک اللہزبردست شراکت ہے۔ دوبارہ پڑھ کر لطف آیا۔ یہ قطعہ مخصوص ہے!
شیخ منبر پہ نا معتبر ہو چکا
رند بدنام کوئے خرابات میں
فاصلہ ہو تو ہو فرق کچھ بھی نہیں
فتوہ دیں میں ہو اور کفر کی بات میں
واہ واہ
تشکرواہ
فراز کی خوبصورت نظم
اور ساتھ میں فیض کی نظم سے سونے پہ سہاگہ ہو گیا۔
دو آتشہ
واہ واہ لطف دو چند ہو گیابالکل
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!
جس میں رکھا نہیں ہے کسی نے قدم
کوئی اترا نہ میداں میں ، دشمن نہ ہم
کوئی صف بن نہ پائی ، نہ کوئی علم
منتشرِ دوستوں کو صدا دے سکا
اجنبی دُشمنوں کا پتا دے سکا
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چُکی!
جس میں رکھا نہیں ہم نے اب تک قدم
تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں
جسم خستہ ہے ، ہاتھوں میں یارا نہیں
اپنے بس کا نہیں بارِ سنگ ستم
بارِ سنگِ ستم ، بار کہسار غم
جس کو چُھوکر سبھی اک طرف ہوگئے
بات کی بات میں ذی شرف ہوگئے
دوستو، کوئے جاناں کی نا مہرباں
خاک پر اپنے روشن لہو کی بہار
اب نہ آئے گی کیا؟ اب کِھلے گا نہ کیا
اس کفِ نازنیں پر کوئی لالہ زار؟
اس حزیں خامشی میں نہ لَوٹے گا کیا
شورِ آوازِ حق ، نعرئہ گیر و دار
شوق کا امتحاں جو ہُوا سو ہُوا
جسم و جاں کا زیاں جو ہُوا سو ہُوا
سُود سے پیشتر ہے زیاں اور بھی
دوستو ماتمِ جسم وجاں اور بھی
اور بھی تلخ تر امتحاں اور بھی