اب کے احسان جتانے بھی نہیں آیا کوئی - شیخ‌ امین

ساقی۔

محفلین
اب کے احسان جتانے بھی نہیں آیا کوئی
میں جو روٹھا تو منانے بھی نہیں آیا کوئی

ایک وہ دور کہ سونے بھی نہ دیتے تھے مجھے
ایک یہ وقت ،جگانے بھی نہیں آیا کوئی

ڈگمگاتا تھا تو سو ہاتھ لپکتے تھے مجھے
گر گیا ہوں‌ تو اٹھانے بھی نہیں آیا کوئی

جانے احباب پہ کیا گزری، خدا خیر کرے
عرصے سے زخم لگانے بھی نہیں آیا کوئی

ایسے اُترا ہوں دلوں سے کہ ہنسانا تو کُجا
ایک مدت سے رُلانے بھی نہیں آیا کوئی

کیا سبھی عہد فقط سانس کے چلنے تک تھے؟
قبر پہ دیپ جلا نے بھی نہیں آیا کوئی

یوں تو سو بار جُڑا، ٹوٹا، مگر اب کے امین
ایسے ٹوٹا کہ بنانے بھی نہیں آیا کوئی

(شیخ امین)
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت اچھی غزل ہے شکریہ جناب شیئر کرنے کیلیے!

اس میں مجھے ایک آدھ جگہ 'ٹائپنگ' کی غلطیاں لگ رہی ہیں اگر پلیز دیکھ سکیں تو شکریہ تا کہ یہ خوبصورت غزل اپنے اصلی رنگ روپ میں آ سکے:

ایک یہ وقت کہ جگانے بھی نہیں آیا کوئی

اس مصرعے میں 'کہ' زائد ہے، ہو سکتا ہے اسکی جگہ کوما (،) ہو۔

عرصے سے نیا زخم لگانے بھی نہیں آیا کوئی

نیا بالکل الحاقی ہے، اس کی کوئی جگہ نہیں بنتی یہاں۔
 

مغزل

محفلین
بہت خوب کلام پیش کیا ہے ، ما شا اللہ ،
وارث صاحب والی بات پر عمل نہیں ہوا ؟
 
Top