ناصر کاظمی اب کے سال پُونم میں جب تو آئے گی ملنے

نیرنگ خیال

لائبریرین
اب کے سال پُونم میں جب تو آئے گی ملنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھا دیں گے، شوخ ترے قدموں میں، ہم نگاہوں سے تیری، آرتی اتاریں گے

تو کہ آج قاتل ہے، پھر بھی راحتِ دل ہے، زہر کی ندی ہے تو، پھر بھی قیمتی ہے تو
پَست حوصلے والے، تیرا ساتھ کیا دیں گے!، زندگی اِدھر آجا! ہم تجھے گزاریں گے!

آہنی کلیجے کو، زخم کی ضرورت ہے، انگلیوں سے جو ٹپکے، اُس لہو کی حاجت ہے
آپ زلفِ جاناں کے خم سنواریے صاحب!، زندگی کی زلفوں کو آپ کیا سنواریں گے!

ہم تو وقت ہیں، پل ہیں، تیز گام گھڑیاں ہیں، بے قرار لمحے ہیں، بے تھکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے، آئے یا نہیں آئے، جو ملے گا رستے میں،ہم اسے پکاریں گے
فناؔ نظامی صاحب کی غزل شریک کرنے کے بعد جب یہ بھی ڈھونڈنے پر نہ ملی تو یہ بھی شریک کر دی۔ میرا خیال ہے کہ ناصر کاظمی کی ہے۔ وگرنہ کوئی بھی صاحبِ علم درستی فرما دے۔

یہی آصف علی صاحب کی آواز میں سنیے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
attachment.php
 

سید زبیر

محفلین
نیرنگ خیال بھائی بہت ہی خوبصورت کلام
کبھی پسند تھی اب تو
سن کے تیرا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں لیکن پھر بھی سنتا رہتا ہوں
ہم تو وقت ہیں، پل ہیں، تیز گام گھڑیاں ہیں
بے قرار لمحے ہیں، بے تھکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے، آئے یا نہیں آئے
جو ملے گا رستے میں،ہم اسے پکاریں گے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کمال ہے بھیا ۔۔۔ بہت شکریہ :) :)
شکرگزار ہوں فصیح۔۔۔ :)

کیا بات ہے
بہت زبردست۔
لطف آ گیا نطم پڑھ کر۔۔۔
اشتراک کا بہت بہت شکریہ
انتخاب کو سراہنے پر ممنون ہوں عباس صاحب۔۔۔ شاد رہیں۔ :)

یہ ہماری تپسیا کو بھسم کرنے کی کوشش کہ ہمیں ایسی رومانی شاعری میں ٹیگ کیا جارہا ہے
فلک شیر بھائی دیکھتے ہیں آپ کچھ بولتے نہیں
مرزا یار اور رومانی شاعری سے اجتناب۔۔۔۔۔ اللہ اللہ۔۔۔۔
یعنی آپ محمداحمد کی زبان میں ہمیں یہ بتانا چاہ رہے ہیں۔۔۔ کہ
مرے رات دن کبھی یوں بھی تھے، کئی خواب میرے دروں بھی تھے
یہ جو روز و شب ہیں قرار میں، یہی پہلے وقفِ جنوں بھی تھے

فلک شیر صاحب نے کیا فرمانا ہے۔۔۔ ان کو تو خود ہجر کا روگ لگا ہے۔۔۔ پنگھٹ آج کل ان کی اکھیوں کے نیچے ہے۔۔۔ مٹیاروں سے گفتگو کا اچھا طریقہ ہے۔۔۔ :p

شکرگزار ہوں لئیق۔ خوشی ہوئی کہ انتخاب معیار ذوق پر اترا۔۔۔ :)

نیرنگ خیال بھائی بہت ہی خوبصورت کلام
کبھی پسند تھی اب تو
سن کے تیرا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں لیکن پھر بھی سنتا رہتا ہوں
ہم تو وقت ہیں، پل ہیں، تیز گام گھڑیاں ہیں
بے قرار لمحے ہیں، بے تھکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے، آئے یا نہیں آئے
جو ملے گا رستے میں،ہم اسے پکاریں گے
"کبھی پسند تھی اب تو" ؟ :p
کوئی اور ہوتا تو میں شاید یوں نہ جانے دیتا۔۔۔ لیکن سر آپ کے سامنے سوائے آداب بجا لانے کے خاکسار اور کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔ :)
 

فاتح

لائبریرین
لڑکپن میں ایک آڈیو کیسٹ میں آصف علی کی آواز میں ناصر کاظمی کی یہ غزل بھی ہوا کرتی تھی میرے پاس اور بے حد پسند تھی، اکثر گنگناتا بھی رہتا تھا لیکن بعد میں ایک انڈین فلم میں اس غزل کی انتہائی گھٹیا پکچرائزیشن دیکھنے کے بعد اسے گنگنانا چھوڑ دیا کہ مبادا سننے والوں نے صرف انڈین فلم والا ورژن دیکھا ہو اور میرے متعلق ان کی رائے مزید خراب ہو جائے۔
ابھی اسے گوگل کر رہا تھا یہ غزل اور آنجناب کی لڑی کا ربط ملا۔۔۔ :)
آپ نے اسے مربع نظم کے انداز میں چار چار مصرعوں کے بند بنا کے لکھا ہے۔ دراصل یہ غزل ہے اور اسے یوں لکھا جانا چاہیے:
اب کے سال پونم میں جب تو آئے گی ملنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھا دیں گے شوخ تیرے قدموں میں، ہم نگاہوں سے تیری آرتی اتاریں گے

تُو کہ آج قاتل ہے پھر بھی راحتِ دل ہے، زہر کی ندی ہے تُو، پھر بھی قیمتی ہے تُو
پست حوصلے والے تیرا ساتھ کیا دیں گے، زندگی ادھر آ جا، ہم تجھے گزاریں گے

آہنی کلیجے کو زخم کی ضرورت ہے، انگلیوں سے جو ٹپکے اُس لہو کی حاجت ہے
آپ زلفِ جاناں کے خم سنواریے صاحب، زندگی کی زلفوں کو آپ کیا سنواریں گے

ہم تو وقت ہیں، پل ہیں، تیز گام گھڑیاں ہیں، بے قرار لمحے ہیں، بے تکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے آئے یا نہیں آئے، جو ملے گا رستے میں ہم اسے پکاریں گے
ناصر کاظمی​

سوال: آصف علی نے تو یہی چار اشعار ہی گائے ہیں لیکن کیا ناصر کاظمی نے لکھے بھی صرف چار ہی ہیں؟
 
آخری تدوین:
آپ نے اسے مربع نظم کے انداز میں چار چار مصرعوں کے بند بنا کے لکھا ہے۔ دراصل یہ غزل ہے اور اسے یوں لکھا جانا چاہیے:
اب کے سال پونم میں جب تو آئے گی ملنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھا دیں گے شوخ تیرے قدموں میں، ہم نگاہوں سے تیری آرتی اتاریں گے

تُو کہ آج قاتل ہے پھر بھی راحتِ دل ہے، زہر کی ندی ہے تُو، پھر بھی قیمتی ہے تُو
پست حوصلے والے تیرا ساتھ کیا دیں گے، زندگی ادھر آ جا، ہم تجھے گزاریں گے

آہنی کلیجے کو زخم کی ضرورت ہے، انگلیوں سے جو ٹپکے اُس لہو کی حاجت ہے
آپ زلفِ جاناں کے خم سنواریے صاحب، زندگی کی زلفوں کو آپ کیا سنواریں گے

ہم تو وقت ہیں، پل ہیں، تیز گام گھڑیاں ہیں، بے قرار لمحے ہیں، بے تکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے آئے یا نہیں آئے، جو ملے گا رستے میں ہم اسے پکاریں گے
ناصر کاظمی​

تدوین کردی ہے جناب
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
لڑکپن میں ایک آڈیو کیسٹ میں آصف علی کی آواز میں ناصر کاظمی کی یہ غزل بھی ہوا کرتی تھی میرے پاس اور بے حد پسند تھی، اکثر گنگناتا بھی رہتا تھا لیکن بعد میں ایک انڈین فلم میں اس غزل کی انتہائی گھٹیا پکچرائزیشن دیکھنے کے بعد اسے گنگنانا چھوڑ دیا کہ مبادا سننے والوں نے صرف انڈین فلم والا ورژن دیکھا ہو اور میرے متعلق ان کی رائے مزید خراب ہو جائے۔
ابھی اسے گوگل کر رہا تھا یہ غزل اور آنجناب کی لڑی کا ربط ملا۔۔۔ :)
آپ نے اسے مربع نظم کے انداز میں چار چار مصرعوں کے بند بنا کے لکھا ہے۔ دراصل یہ غزل ہے اور اسے یوں لکھا جانا چاہیے:
اب کے سال پونم میں جب تو آئے گی ملنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھا دیں گے شوخ تیرے قدموں میں، ہم نگاہوں سے تیری آرتی اتاریں گے

تُو کہ آج قاتل ہے پھر بھی راحتِ دل ہے، زہر کی ندی ہے تُو، پھر بھی قیمتی ہے تُو
پست حوصلے والے تیرا ساتھ کیا دیں گے، زندگی ادھر آ جا، ہم تجھے گزاریں گے

آہنی کلیجے کو زخم کی ضرورت ہے، انگلیوں سے جو ٹپکے اُس لہو کی حاجت ہے
آپ زلفِ جاناں کے خم سنواریے صاحب، زندگی کی زلفوں کو آپ کیا سنواریں گے

ہم تو وقت ہیں، پل ہیں، تیز گام گھڑیاں ہیں، بے قرار لمحے ہیں، بے تکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے آئے یا نہیں آئے، جو ملے گا رستے میں ہم اسے پکاریں گے
ناصر کاظمی​

سوال: آصف علی نے تو یہی چار اشعار ہی گائے ہیں لیکن کیا ناصر کاظمی نے لکھے بھی صرف چار ہی ہیں؟
فاتح بھائی! میں نے سن کر لکھی تھی سو جیسے شاعر نے گائی ویسے ہی میں نے لکھ دیا۔۔۔۔۔ آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ ہی تلاش کریں اور پھر مجھ ناتوانوں کو بھی بتائیں۔ :)
 

سیما علی

لائبریرین
اب کے سال پونم میں جب تو آئے گی ملنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے

دھڑکنیں بچھادیں گے شوخ تیرے قدموں پہ، ہم نگاہوں سے تیری آرتی اتاریں گے



تو کہ آج قاتل ہے، پھر بھی راحتِ دل ہے، زہر کی ندی ہے تو، پھر بھی قیمتی ہے تو


پست حوصلے والے تیرا ساتھ کیا دیں گے، زندگی ادھر آجا ہم تجھے گزاریں گے


آہنی کلیجے کو زخم کی ضرورت ہے، انگلیوں سے جو ٹپکے اس لہو کی حاجت ہے


آپ زلف جاناں کے خم سنواریئے صاحب، زندگی کی زلفوں کو آپ کیا سنواریں گے


ہم تو وقت ہیں، پل ہیں، تیزگام گھڑیاں ہیں، بے قرار لمحے ہیں، بے تکان صدیاں ہیں


کوئی ساتھ میں اپنے آئے یا نہیں آئے، جو ملے گا رستے میں، ہم اسے پکاریں گے


(ناصر کاظمی)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ آرتی کیا ہوتی ہے اور یہ کہاں چڑھی ہوتی ہے ؟ جسے اتارا جاتا ہے ۔ آڑھتی بھی اسی کو کہتے ہیں یا کوئئ فرق ہے۔
کوئی اس پر روشنی ڈال سکتا ہے کہ یہ مذھبی رسم ہے یا ثقافتی روایت ۔ الغرض یہ ہے کیا بلا ؟
اور یہ پونم کونسا موسم یا وقت ہوتا ہے ؟
 
یہ آرتی کیا ہوتی ہے اور یہ کہاں چڑھی ہوتی ہے ؟ جسے اتارا جاتا ہے ۔ آڑھتی بھی اسی کو کہتے ہیں یا کوئئ فرق ہے۔
کوئی اس پر روشنی ڈال سکتا ہے کہ یہ مذھبی رسم ہے یا ثقافتی روایت ۔ الغرض یہ ہے کیا بلا ؟
اور یہ پونم کونسا موسم یا وقت ہوتا ہے ؟
فی الحال تو یہ بتاسکتے ہیں کہ "آرتی اتارنا" ہندوانہ رسم ہے. ممدوح کو سامنے بٹھا کر یہ رسم ادا کی جاتی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
فی الحال تو یہ بتاسکتے ہیں کہ "آرتی اتارنا" ہندوانہ رسم ہے. ممدوح کو سامنے بٹھا کر یہ رسم ادا کی جاتی ہے۔
اچھا خوب ۔
کسی حد تک اندازہ تو تھا ۔ لیکن یقینا ً اس کے پس منظر میں کوئی (مذہبی یا اسطوری روایتی) تصور اور مقصود بھی ہوگا ۔
شاید الف عین یا فہد اشرف بھائی کچھ اس کی بابت بتا سکیں ۔
یہ تو آرتی اتارنے کی بات ہوئی ۔ اب خود یہ مجرد آرتی کیا بلا ہوئی ؟
(فوڈ فار تھاٹ :) )
 
اچھا خوب ۔
کسی حد تک اندازہ تو تھا ۔ لیکن یقینا ً اس کے پس منظر میں کوئی (مذہبی یا اسطوری روایتی) تصور اور مقصود بھی ہوگا ۔
شاید الف عین یا فہد اشرف بھائی کچھ اس کی بابت بتا سکیں ۔
یہ تو آرتی اتارنے کی بات ہوئی ۔ اب خود یہ مجرد آرتی کیا بلا ہوئی ؟
(فوڈ فار تھاٹ :) )
آرتی - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا

مندرجہ بالا مضمون کی روشنی میں ممدوح کی دیوتا کی طرح سامنے بٹھاکر رسم آرتی اتارنا کہلاتی ہے۔
 
Top