فاتح
لائبریرین
اب کے ماہِ رمَضاں دیکھا تھا پیمانے میں
بارے سب روزے تو گذرے مجھے میخانے میں
جیسے بجلی کے چمکنے سے کسو کی سدھ جائے
بے خودی آئی اچانک ترے آ جانے میں
وہ تو بالیں تئیں آیا تھا ہماری لیکن
سدھ بھی کچھ ہم کو نہ تھی جانے کے گھبرانے میں
آج سنتے ہیں کہ فردا وہ قد آرا ہو گا
دیر کچھ اتنی قیامت کے نہیں آنے میں
حق جو چاہے تو بندھی مٹھی چلا جاؤں میرؔ
مصلحت دیکھی نہ میں ہاتھ کے پھیلانے میں
میر تقی میرؔ