چلو اب میں کرم کی ہمدردی کر دیتا ہوں. غزل کو میں پسند آنے یا نا پسند ہونے کے نظریے سے نہیں دیکھتا. محض زبان و بیان کی اغلاط اور عروض کے حساب سے فٹ کرنے کی کوشش کر دیتا ہوں.
ہر اک دل میں گھر کر جانا
اتنا بھی آسان نہیں ہے
/// زبان و بیان کے لحاظ سے چلے گا، مطلب و معانی سے قطع نظر
ہر سو زخمی پھول ہیں بکھرے
کوئی بھی گلدان نہیں ہے
// پہلا مصرع رواں نہیں، اس کو یوں کیا جا سکتا ہے:
بکھرے گل ہیں زخمی زخمی
چاہت کا پیغام سُنا دے
مشکل یہ گردان نہیں ہے
//گردان کسی فقرے کی ہو سکتی ہے، پیغام کی گردان؟
باہر سے تو طاقتور ہے
لیکن اس میں جان نہیں ہے
//کون؟ ویسے وزن میں ہے شعر.
دیکھو کتنے خوش ہیں سارے
جنگل میں انسان نہیں ہے
چلے گا. ظاہر ہے جنگلی لوگوں کو ہی خوش کہا گیا ہے.
کیسے خاکم ہم کو ملے ہیں
اک بھی سر پر کان نہیںہے
یا
سُننے کو اک کان نہیں ہے
حاکم کان سے حکومت کرتے ہیں؟ ہاں یہ بات ہو کہ وہ کسی کی سنتے نہیں تو مانا جا سکتا ہے. دوسرا مصرع رواں نہیں، دونوں متبادل مصرعے. شاید یوں بہتر ہو:
جن کا ایک بھی کان نہیںہے
چھوڑو چھوڑو جھوٹ کا اب تو
سچ پر بھی ایمان نہیں ہے
//بے معنی شعر لگتا ہے
خوش ہے اپنے آپ میں خرم
اس کو خود پر مان نہیں ہے
چلے گا.