اتنا تڑپے ہیں بس انتہا ہو گئی - اسٹیو الماس

کاشفی

محفلین
غزل
(اسٹیو الماس)

اتنا تڑپے ہیں بس انتہا ہو گئی
زندگی بن ترے کیا سے کیا ہوگئی

بے بسی کا عجب ہے یہ عالم کہ بس
جسم سے جان جیسے جُدا ہو گئی

موت آجا گلے سے لگا لے مجھے
کیا کہوں زندگی بے وفا ہو گئی

ہر کوئی مجھ سے روٹھا لگے آج کل
آشنائی بھی نا آشنا ہو گئی

کل جسے درد کا نام دیتے تھے وہ
اب وہی بڑھ کے دل کی دوا ہو گئی

شہر افسوس میں گل ہوئے سب دیئے
گھپ اندھیرا ہے دشمن ہوا ہو گئی

کون سے جرم کی سزا آخرش
یہ بتا دو جو ہم سے خطا ہو گئی

حالِ دل اس کا الماس پوچھو ذرا
زندگی مل کے جس سے خفا ہو گئی
 

کاشفی

محفلین
فرحان دانش بھائی

سخنور صاحب!

نبیل صاحب!

آپ تینوں اراکینِ محفل کا بیحد شکریہ ۔۔خوش رہیں۔
 
Top