محمداحمد
لائبریرین
خبر ہے کہ گلشنِ اقبال میں منعقد ہونے والے ہفتہ وار اتوار بازار (افسوس کہ اتوار ہفتے میں ایک بار ہی آتا ہے)میں چشمِ فلک نے ایک ایسا نظارہ دیکھاکہ جو اس سے پہلے نہ آج تک کبھی دیکھا گیا نہ سنا گیا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں سماجی مساوات انتہائی درجے پر عدم توازن کا شکار ہے اور معاشرہ محض مَردوں کا معاشرہ بن کر رہ گیا ہے وہاں تمیزِ مرد و زن سے بالاتر ایک ایسا منظر رونما ہواکہ جسے دیکھ کر خلقت دنگ رہ گئی۔
عینی شاہد کے مطابق (یعنی میرے مطابق) اتوار بازار انتظامیہ نے ایک بینر پر درج ذیل انتباہ درج کیا۔
"جیب کتروں اور جیب کتریوں سے ہُشیار رہیں ۔۔۔ "
اگر تحقیق و تدقیق کا بیڑا اُٹھایا جائے تو ماضی قریب و بعید اس قسم کی مساوات سے یکسر عاری نظر آتے ہیں۔ ماضی میں ہمیشہ یہی روایت رہی ہے کہ اس قسم کے "اہم معاملات "میں صنفِ نازک کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا اور سارا "کریڈٹ" مرد سماج کے ٹھیکے داروں کو دے دیا جاتا ۔ لیکن اب دنیا بدل رہی ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ محض اُمید کی ایک کرن نہیں ہے بلکہ یہ ایک نئی صبح کا آغاز ہے۔
اس مقام پر ہمیں تحریر میں ایک انقلابی شعر یا قطعہ لکھنا چاہیے لیکن افسوس کہ حافظہ اس وقت ساتھ نہیں دے رہا۔
پس نوشت: ممکن ہے کہ مرد سماج کے سرکردہ افراد میں سے کوئی "نا سمجھ" یہ کہے کہ "اس قسم" کے معاملات میں تقدیم و تاخیر اہم ہے اور مردوں کی برتری ہنوز برقرار ہے۔ تاہم ہم اُنہیں یہ کہنا چاہیں گے کہ وہ اس غرّے میں نہ رہیں ۔وہ دن دور نہیں جب تقدیم و تاخیر کے تخت بھی تختہ ہو جائیں گے۔ بلکہ ہمارا تو خیا ل ہے کہ:
ع ۔ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
اُمید ہے کہ تحریر میں اس مصرع کے وقتِ نزول، شانِ نزول اور ہمارے حافظے کی تاخیری مستعدی کو قارئین نظر انداز فرمائیں گے۔
عینی شاہد کے مطابق (یعنی میرے مطابق) اتوار بازار انتظامیہ نے ایک بینر پر درج ذیل انتباہ درج کیا۔
"جیب کتروں اور جیب کتریوں سے ہُشیار رہیں ۔۔۔ "
اگر تحقیق و تدقیق کا بیڑا اُٹھایا جائے تو ماضی قریب و بعید اس قسم کی مساوات سے یکسر عاری نظر آتے ہیں۔ ماضی میں ہمیشہ یہی روایت رہی ہے کہ اس قسم کے "اہم معاملات "میں صنفِ نازک کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا اور سارا "کریڈٹ" مرد سماج کے ٹھیکے داروں کو دے دیا جاتا ۔ لیکن اب دنیا بدل رہی ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ محض اُمید کی ایک کرن نہیں ہے بلکہ یہ ایک نئی صبح کا آغاز ہے۔
اس مقام پر ہمیں تحریر میں ایک انقلابی شعر یا قطعہ لکھنا چاہیے لیکن افسوس کہ حافظہ اس وقت ساتھ نہیں دے رہا۔
پس نوشت: ممکن ہے کہ مرد سماج کے سرکردہ افراد میں سے کوئی "نا سمجھ" یہ کہے کہ "اس قسم" کے معاملات میں تقدیم و تاخیر اہم ہے اور مردوں کی برتری ہنوز برقرار ہے۔ تاہم ہم اُنہیں یہ کہنا چاہیں گے کہ وہ اس غرّے میں نہ رہیں ۔وہ دن دور نہیں جب تقدیم و تاخیر کے تخت بھی تختہ ہو جائیں گے۔ بلکہ ہمارا تو خیا ل ہے کہ:
ع ۔ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
اُمید ہے کہ تحریر میں اس مصرع کے وقتِ نزول، شانِ نزول اور ہمارے حافظے کی تاخیری مستعدی کو قارئین نظر انداز فرمائیں گے۔
*********