اکمل زیدی
محفلین
واہ کیا طرح کا مصرع دیا ہے آپ نے کہنہ مشقوں کو یہاں ۔ ۔ ۔اس جملے میں "اب" بہت اہم ہے۔
واہ کیا طرح کا مصرع دیا ہے آپ نے کہنہ مشقوں کو یہاں ۔ ۔ ۔اس جملے میں "اب" بہت اہم ہے۔
آہ!! کیا احمد فراز یاد دلا دیے آپ نے ۔ ۔ ۔اب تو اکمل بھائی متحمل نہیں ہو سکتے۔ چلیے ان سے "تب" کے کچھ قصے سن لیتے ہیں۔
جی اکمل بھائی! ہم ہمہ تن گوش بیٹھے ہیں۔
جی جی ۔۔۔اچھا مشورہ ہے آپ نے سین پارٹ کے چکر میں یعنی آپ مشتاق ہیں کہ اس طرح برق رفتاری کا نتیہجہ اس پر منتہی ہو کہ ہم پر برق گرے اور ہم نصف سے ایک چوتھائی رہ جائیں ہم نے کچھ نہیں بتایا اس لیے خیریت سے ہیں۔۔۔۔واہ بھئی واہ ہوئے تم دوست جس کے ۔ ۔ ۔ ۔اس نصف رفتار کی خبر برق رفتاری سے اپنی نصف بہتر کو بھی کر دیں تو یہ اچھا خاصا بہتر سین پارٹ ہو جائے گا۔ خیریت کی اطلاع یہیں پر دیتے رہیے گا۔
جبکہ مجھے لگتا ہے آپ نے ساحر والا کام کیا ہو گا۔ کسی (خوبصورت سے) ایک آدھ موڑ تک تو بائیک والی کے ساتھ چلے ہی ہوں گے۔ 😜آہ!! کیا احمد فراز یاد دلا دیے آپ نے ۔ ۔ ۔
وہ کہانیاں ادھوری، جو نہ ہو سکیں گی پوری
انہیں میں بھی کیوں سناؤں ۔ ۔ ۔
اس نصف رفتار کی خبر برق رفتاری سے اپنی نصف بہتر کو بھی کر دیں تو یہ اچھا خاصا بہتر سین پارٹ ہو جائے گا۔ خیریت کی اطلاع یہیں پر دیتے رہیے گا۔
حالانکہ علی بھائی کو چاہیے تھا کہ "خیریت" کے لفظ کو دو دو بار واوین میں قید کرتے 😊جی جی ۔۔۔اچھا مشورہ ہے آپ نے سین پارٹ کے چکر میں یعنی آپ مشتاق ہیں کہ اس طرح برق رفتاری کا نتیہجہ اس پر منتہی ہو کہ ہم پر برق گرے اور ہم نصف سے ایک چوتھائی رہ جائیں ہم نے کچھ نہیں بتایا اس لیے خیریت سے ہیں۔۔۔۔واہ بھئی واہ ہوئے تم دوست جس کے ۔ ۔ ۔ ۔
ظہیر بھائی ۔۔خوب تبصرہ ہے آپ کا ۔ ۔ ۔ مگر شاید آپ بھول گئے کہ یہ تحریر فاخر صاحب نے نہیں لکھی کہ لکھنو کی جامع مسجد کے قرب و جوارکے یک شنبہ بازار کا قصہ ہے یہ اپنے گلشن اقبال کی بات ہے ۔۔۔یادش بخیر ، اتوار بازار تو سنڈے کے سنڈے ہم بھی جایا کرتے تھے لیکن اس زمانے میں اتوار بازار کے اطوار ایسے نہیں تھے کہ دکانداروں کو مشتری ہشیار باش کے بینر لگانا پڑیں۔ موجودہ صورتحال میں یہ انتباہ درست معلوم ہوتا ہے۔ خریدار کی جیب اگر دکاندار سے پہلے ہی کوئی اور صاف کرجائے تو پھر یہ اتوار بازار تو ان کے لیے بیکار بازار ہوا۔ اس خاکسار کی رائے میں یہ بینر حق بجانب لیکن حشو و زائد سے ملوث ہے۔ اس میں دو دفعہ جیب لکھنے کی ضرورت نہیں۔ جیب کتروں اور کتریوں سے ہشیار رہیں کافی ہے۔ اتوار بازار میں فضول خرچی سے پرہیز لازم ہے خواہ وہ لفظی فضول خرچی ہی کیوں نہ ہو۔
یہ تجویز بازار کے منتظمین کو تجویز کر تو دی جائے لیکن پھر یہ خیال آتا ہے کہ بینر سے ایک جیب کاٹنے کے بعد اگر کوئی عقلمند یہ اعتراض اٹھائے کہ میاں جیب لکھنے کی سرے سے ضرورت ہی کیا ہے۔ اتوار بازار میں جیب کے علاوہ اور کاٹا بھی کیا جاسکتا ہے۔ صرف کتروں اور کتریوں سے ہوشیار رہیں کافی رہے گا۔ تو بات یہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن پھر اس کے بعد کوئی اور سیانا یہ نکتہ بھی اٹھاسکتا ہے کہ بھئی ایسے لوگوں سے بازار میں ہوشیار ہی رہا جاتا ہے ، مصافحہ اور معانقہ تو نہیں کیا جاتا۔ ہوشیار رہیں کے الفاظ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خریدار لوگ بیوقوف تھوڑا ہی ہوتے ہیں۔ عقلمند لوگ ہیں ، ان کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ صرف کتروں اور کتریوں سے کام چل جائے گا۔ مختصر سا بینر ، کپڑے اور سیاہی کی بچت الگ!
یہاں تک بھی بات ٹھیک ہے۔ لیکن پھر ایک خیال مزید یہ آتا ہےکہ تازہ مچھلی والے لطیفے سے بے خبر گرامر پولس کا کوئی تازہ بھرتی شدہ کانسٹبل اگر عادت کے مطابق اس بینر کو پڑھ لے تو فوراً اعتراض داغے گا کہ: اے دانشمند سوداگرانِ بازارِ یک شنبہ! ان الفاظ میں نون غنّہ کے بجائے علامتِ استفہام کا محل ہے ، اس سے پہلے کہ یہ بازاری زبان مشتریانِ باذوق کی حسِ لطیف کو مجروح کرے ، اسے بدل ڈالو اور ایک پرچمِ تازہ "کترو اور کتریو!" کے مضمون کا بنوا کر سرِ بازار نصب کرو کہ واردانِ سوق کو خوش آمدید کہے۔
احمد بھائی ، سمندِ خیال اس مقام پر پہنچ کر یکلخت رک سا جاتا ہے۔ سو بہتر یہی ہے کہ عوامی فوائد کو لسانی قواعد پر ترجیح دیتے ہوئے بینر کو جوں کا توں اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔
جیب کتروں اور جیب کتریوں سے ہشیار رہیں !
عجیب اتفاق ہے قبلہ ۔۔۔۔میں بھی کبھی پیر کو نہیں گیا یہاں ۔ ۔ ۔ ۔یادش بخیر ، اتوار بازار تو سنڈے کے سنڈے ہم بھی جایا کرتے تھے
بہت خوب! انشاء جی یاد آگئے۔ سلامت رہیے۔یادش بخیر ، اتوار بازار تو سنڈے کے سنڈے ہم بھی جایا کرتے تھے لیکن اس زمانے میں اتوار بازار کے اطوار ایسے نہیں تھے کہ دکانداروں کو مشتری ہشیار باش کے بینر لگانا پڑیں۔ موجودہ صورتحال میں یہ انتباہ درست معلوم ہوتا ہے۔ خریدار کی جیب اگر دکاندار سے پہلے ہی کوئی اور صاف کرجائے تو پھر یہ اتوار بازار تو ان کے لیے بیکار بازار ہوا۔ اس خاکسار کی رائے میں یہ بینر حق بجانب لیکن حشو و زائد سے ملوث ہے۔ اس میں دو دفعہ جیب لکھنے کی ضرورت نہیں۔ جیب کتروں اور کتریوں سے ہشیار رہیں کافی ہے۔ اتوار بازار میں فضول خرچی سے پرہیز لازم ہے خواہ وہ لفظی فضول خرچی ہی کیوں نہ ہو۔
یہ تجویز بازار کے منتظمین کو تجویز کر تو دی جائے لیکن پھر یہ خیال آتا ہے کہ بینر سے ایک جیب کاٹنے کے بعد اگر کوئی عقلمند یہ اعتراض اٹھائے کہ میاں جیب لکھنے کی سرے سے ضرورت ہی کیا ہے۔ اتوار بازار میں جیب کے علاوہ اور کاٹا بھی کیا جاسکتا ہے۔ صرف کتروں اور کتریوں سے ہوشیار رہیں کافی رہے گا۔ تو بات یہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن پھر اس کے بعد کوئی اور سیانا یہ نکتہ بھی اٹھاسکتا ہے کہ بھئی ایسے لوگوں سے بازار میں ہوشیار ہی رہا جاتا ہے ، مصافحہ اور معانقہ تو نہیں کیا جاتا۔ ہوشیار رہیں کے الفاظ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خریدار لوگ بیوقوف تھوڑا ہی ہوتے ہیں۔ عقلمند لوگ ہیں ، ان کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ صرف کتروں اور کتریوں سے کام چل جائے گا۔ مختصر سا بینر ، کپڑے اور سیاہی کی بچت الگ!
یہاں تک بھی بات ٹھیک ہے۔ لیکن پھر ایک خیال مزید یہ آتا ہےکہ تازہ مچھلی والے لطیفے سے بے خبر گرامر پولس کا کوئی تازہ بھرتی شدہ کانسٹبل اگر عادت کے مطابق اس بینر کو پڑھ لے تو فوراً اعتراض داغے گا کہ: اے دانشمند سوداگرانِ بازارِ یک شنبہ! ان الفاظ میں نون غنّہ کے بجائے علامتِ استفہام کا محل ہے ، اس سے پہلے کہ یہ بازاری زبان مشتریانِ باذوق کی حسِ لطیف کو مجروح کرے ، اسے بدل ڈالو اور ایک پرچمِ تازہ "کترو اور کتریو!" کے مضمون کا بنوا کر سرِ بازار نصب کرو کہ واردانِ سوق کو خوش آمدید کہے۔
احمد بھائی ، سمندِ خیال اس مقام پر پہنچ کر یکلخت رک سا جاتا ہے۔ سو بہتر یہی ہے کہ عوامی فوائد کو لسانی قواعد پر ترجیح دیتے ہوئے بینر کو جوں کا توں اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔
جیب کتروں اور جیب کتریوں سے ہشیار رہیں !
کبھی کبھی اس خاکسار کو بھی یاد کرلیا کریں ، عبید بھائی۔بہت خوب! انشاء جی یاد آگئے۔ سلامت رہیے۔
واہ۔۔۔۔ کلاسیک۔۔۔یادش بخیر ، اتوار بازار تو سنڈے کے سنڈے ہم بھی جایا کرتے تھے لیکن اس زمانے میں اتوار بازار کے اطوار ایسے نہیں تھے کہ دکانداروں کو مشتری ہشیار باش کے بینر لگانا پڑیں۔ موجودہ صورتحال میں یہ انتباہ درست معلوم ہوتا ہے۔ خریدار کی جیب اگر دکاندار سے پہلے ہی کوئی اور صاف کرجائے تو پھر یہ اتوار بازار تو ان کے لیے بیکار بازار ہوا۔ اس خاکسار کی رائے میں یہ بینر حق بجانب لیکن حشو و زائد سے ملوث ہے۔ اس میں دو دفعہ جیب لکھنے کی ضرورت نہیں۔ جیب کتروں اور کتریوں سے ہشیار رہیں کافی ہے۔ اتوار بازار میں فضول خرچی سے پرہیز لازم ہے خواہ وہ لفظی فضول خرچی ہی کیوں نہ ہو۔
یہ تجویز بازار کے منتظمین کو تجویز کر تو دی جائے لیکن پھر یہ خیال آتا ہے کہ بینر سے ایک جیب کاٹنے کے بعد اگر کوئی عقلمند یہ اعتراض اٹھائے کہ میاں جیب لکھنے کی سرے سے ضرورت ہی کیا ہے۔ اتوار بازار میں جیب کے علاوہ اور کاٹا بھی کیا جاسکتا ہے۔ صرف کتروں اور کتریوں سے ہوشیار رہیں کافی رہے گا۔ تو بات یہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن پھر اس کے بعد کوئی اور سیانا یہ نکتہ بھی اٹھاسکتا ہے کہ بھئی ایسے لوگوں سے بازار میں ہوشیار ہی رہا جاتا ہے ، مصافحہ اور معانقہ تو نہیں کیا جاتا۔ ہوشیار رہیں کے الفاظ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خریدار لوگ بیوقوف تھوڑا ہی ہوتے ہیں۔ عقلمند لوگ ہیں ، ان کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ صرف کتروں اور کتریوں سے کام چل جائے گا۔ مختصر سا بینر ، کپڑے اور سیاہی کی بچت الگ!
یہاں تک بھی بات ٹھیک ہے۔ لیکن پھر ایک خیال مزید یہ آتا ہےکہ تازہ مچھلی والے لطیفے سے بے خبر گرامر پولس کا کوئی تازہ بھرتی شدہ کانسٹبل اگر عادت کے مطابق اس بینر کو پڑھ لے تو فوراً اعتراض داغے گا کہ: اے دانشمند سوداگرانِ بازارِ یک شنبہ! ان الفاظ میں نون غنّہ کے بجائے علامتِ استفہام کا محل ہے ، اس سے پہلے کہ یہ بازاری زبان مشتریانِ باذوق کی حسِ لطیف کو مجروح کرے ، اسے بدل ڈالو اور ایک پرچمِ تازہ "کترو اور کتریو!" کے مضمون کا بنوا کر سرِ بازار نصب کرو کہ واردانِ سوق کو خوش آمدید کہے۔
احمد بھائی ، سمندِ خیال اس مقام پر پہنچ کر یکلخت رک سا جاتا ہے۔ سو بہتر یہی ہے کہ عوامی فوائد کو لسانی قواعد پر ترجیح دیتے ہوئے بینر کو جوں کا توں اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔
جیب کتروں اور جیب کتریوں سے ہشیار رہیں !
یادش بخیر ، اتوار بازار تو سنڈے کے سنڈے ہم بھی جایا کرتے تھ
اسلام آباد کا اتوار بازار ہفتے میں تین دن لگتا تھا۔۔۔ اور لاہور کا اتوار بازار۔۔۔ پورا ہفتہ لگتا ہے۔۔۔۔ لہذا میں ان چنے ہوئے لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف اتوار کو اتوار بازار جاتے ہیں۔ احتیاط یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ ابھی بھی موجود ہیں وہ دن جب ۔۔۔۔ ہفتے کے ساتوں دن میں اتوار بازار جایا کرتا تھا۔۔۔عجیب اتفاق ہے قبلہ ۔۔۔۔میں بھی کبھی پیر کو نہیں گیا یہاں ۔ ۔ ۔ ۔
بہت شکریہ! حوصلہ افزائی کے لئے بے حد ممنون ہوں۔بہت خوب
بہت خوب
کیا کہنے بہت عمدہ تحر یر بہت اچھا لگا پڑھ کے ہمیشہ کی طرح ،جیتے رہیے ،
اب رفتہ رفتہ مختلف نجی اور سرکاری اداروں میں خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔اب بھی اتنے بڑے شہر میں لوگ بڑی مشکل سے خواتین کو پروفشنلز کے طور پر قبول کرتے !ہم ایک بڑے ادارے کے ساتھ منسلک رہے لیکن ابھی کچھ ہی دن پہلے پڑھا کہ ابھی صرف ۔۔۔
Currently, women comprise 20% of HBL's staff.
ہمارا خیال ہے کہ ہماری طرح باقی سب محفلین بھی یہ بات سمجھتے ہوں گے کہ کم از کم آپ ان لوگوں میں سے ہرگز نہیں ہیں۔ انسان کی گفتگو بتا دیتی ہے کہ وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ سو آپ کو لوگوں کی باتوں کی فکر کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔جبکہ جب بھی خواتین کو کوئی Incentive ملا تو یہ سننے کو ملا
they took benefits of their gender
تو بس بھیا ہشیار ضرور رہیں !مگر خیال رہے کہ بھابھی کو آگہی دیجیے کیونکہ جیب کتریوں نے اُنہی کی طرف جانا ہے
آپ نے جان بوجھ کر حافظے کو زحمت نہیں دی۔۔ ورنہ گلشن اور گل دونوں پر قطعات کی ہرگز کمی نہ ہے۔۔۔۔
کیا ہی زبردست لطیف تحریر پڑھنے کو ملی ہے۔۔۔ مزا آگیا۔۔۔
بہت عمدہ! بہت ہی شگفتہ اور فرحت افزاتحریر ہے ، احمد بھائی ۔ آپ کےمخصوص انداز کا نپا تلا فکاہیہ!
اچھے شگفتہ نگار کی یہی خصوصیت ہوتی ہے کہ روز مرہ زندگی کے عام سے واقعات کو اپنے متبسم عدسے کی مدد سے دیکھ کر اپنی نوکِ قلم سے وہ وہ پہلو گدگداتا ہے کہ قارئین گرانیِ روز و شب کو ہلکا محسوس کرنے لگیں ۔ واہ!
یادش بخیر ، اتوار بازار تو سنڈے کے سنڈے ہم بھی جایا کرتے تھے لیکن اس زمانے میں اتوار بازار کے اطوار ایسے نہیں تھے کہ دکانداروں کو مشتری ہشیار باش کے بینر لگانا پڑیں۔ موجودہ صورتحال میں یہ انتباہ درست معلوم ہوتا ہے۔ خریدار کی جیب اگر دکاندار سے پہلے ہی کوئی اور صاف کرجائے تو پھر یہ اتوار بازار تو ان کے لیے بیکار بازار ہوا۔
ہاہاہا۔۔۔!یعنی فضول گوئی کو فضول خرچی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔اس خاکسار کی رائے میں یہ بینر حق بجانب لیکن حشو و زائد سے ملوث ہے۔ اس میں دو دفعہ جیب لکھنے کی ضرورت نہیں۔ جیب کتروں اور کتریوں سے ہشیار رہیں کافی ہے۔ اتوار بازار میں فضول خرچی سے پرہیز لازم ہے خواہ وہ لفظی فضول خرچی ہی کیوں نہ ہو۔
اے دانشمند سوداگرانِ بازارِ یک شنبہ! ان الفاظ میں نون غنّہ کے بجائے علامتِ استفہام کا محل ہے ، اس سے پہلے کہ یہ بازاری زبان مشتریانِ باذوق کی حسِ لطیف کو مجروح کرے ، اسے بدل ڈالو اور ایک پرچمِ تازہ "کترو اور کتریو!" کے مضمون کا بنوا کر سرِ بازار نصب کرو کہ واردانِ سوق کو خوش آمدید کہے۔
احمد بھائی ، سمندِ خیال اس مقام پر پہنچ کر یکلخت رک سا جاتا ہے۔ سو بہتر یہی ہے کہ عوامی فوائد کو لسانی قواعد پر ترجیح دیتے ہوئے بینر کو جوں کا توں اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔
جیب کتروں اور جیب کتریوں سے ہشیار رہیں !
اسے پھر اتوار بازار کے بجائے ہفتہ بازار کہنا چاہیے کہ پورا ہفتہ لگا رہتا ہے۔اسلام آباد کا اتوار بازار ہفتے میں تین دن لگتا تھا۔۔۔ اور لاہور کا اتوار بازار۔۔۔ پورا ہفتہ لگتا ہے۔
لہذا میں ان چنے ہوئے لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف اتوار کو اتوار بازار جاتے ہیں۔
ہر روز، روزِ عید ہے، ہر شب، سبِ برآت!احتیاط یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ ابھی بھی موجود ہیں وہ دن جب ۔۔۔۔ ہفتے کے ساتوں دن میں اتوار بازار جایا کرتا تھا۔۔۔
لگتا ہے احمد بھائی کے ساتھ کوئی نسوانی واردات ہو گئی ہے۔
بیان کریں یہ وارداتیں۔۔۔ اصلی والیوہ بھی جنہیں وہ محفل میں اصلی کہہ کر سناتے ہیں۔
تاکہ آپ کرسکیں اس کی تشریح۔۔۔۔۔۔۔ ہممبیان کریں یہ وارداتیں۔۔۔ اصلی والی