مزمل شیخ بسمل
محفلین
آئینہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا
چہرۂ شاہدِ مقصود عیاں ہے کہ جو تھا
عشقِ گل میں وہی بلبل کا فغاں ہے کہ جو تھا
پرتَوِ مہ سے وہی حال کتاں ہے کہ جو تھا
عالمِ حسن خداداد بتاں ہے کہ جو تھا
ناز و انداز بلائے دل و جاں ہے کہ جو تھا
راہ میں تیری شب و روز بسر کرتا ہوں
وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا
روز کرتے ہیں شب ہجر کو بیداری میں
اپنی آنکھوں میں سبک خواب، گراں ہے کہ جو تھا
ایک عالم میں ہو ہر چند مسیحا مشہور
نامِ بیمار سے تم کو خفقاں ہے کہ جو تھا
دولتِ عشق کا گنجینہ وہی سینہ ہے
داغِ دل، زخمِ جگر مہر و نشاں ہے کہ جو تھا
ناز و انداز و ادا سے تمہیں شرم آنے لگی
عارضی حسن کا عالم وہ کہاں ہے، کہ جو تھا
جاں کی تسکیں کے حالتِ دل کہتے ہیں
بے یقینی کا تری ہم کو گماں ہے کہ جو تھا
اثرِ منزلِ مقصود نہیں دنیا میں
راہ میں قافلۂ ریگ رواں ہے کہ جو تھا
دہن اس روئے کتابی میں ہے، پر نا پیدا
اسمِ اعظم وہی قراں میں نہاں ہے کہ جو تھا
کعبۂ مدِّ نظر، قبلہ نما ہے تاحال
کوئے جاناں کی طرف دل نگراں ہے کہ جو تھا
کوہ و صحرا و گلستاں میں پھرا کرتا ہے
متلاشی وہ ترا آبِ رواں ہے کہ جو تھا
سوزشِ دل سے تسلسل ہے وہی آہوں کا
عود کے جلنے سے مجمر میں دھواں ہے کہ جو تھا
رات کٹ جاتی ہے باتیں وہی سنتے سنتے
شمعِ محفل صنمِ چرب زباں ہے کہ جو تھا
پائے خم مستوں کی ہو حق کا جو عالم ہے سو ہے
سرِ منبر وہی واعظ کا بیاں ہے، کہ جو تھا
کون سے دن نئی قبریں نہیں اس میں بنتیں
یہ خرابہ وہی عبرت کا مکاں ہے کہ جو تھا
بے خبرشوق سے میرے نہیں وہ نُورِ نِگاہ
قاصدِ اشک شب و روز رواں ہے کہ جو تھا
لیلتہ القدر کنایہ نہ شبِ وصل سے ہو؟
اِس کا افسانہ میانِ رَمَضاں ہے کہ جو تھا
دین و دنیا کا طلب گار ہنوز آتشؔ ہے
یہ گدا سائلِ نقدِ دو جہاں ہے کہ جو تھ
چہرۂ شاہدِ مقصود عیاں ہے کہ جو تھا
عشقِ گل میں وہی بلبل کا فغاں ہے کہ جو تھا
پرتَوِ مہ سے وہی حال کتاں ہے کہ جو تھا
عالمِ حسن خداداد بتاں ہے کہ جو تھا
ناز و انداز بلائے دل و جاں ہے کہ جو تھا
راہ میں تیری شب و روز بسر کرتا ہوں
وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا
روز کرتے ہیں شب ہجر کو بیداری میں
اپنی آنکھوں میں سبک خواب، گراں ہے کہ جو تھا
ایک عالم میں ہو ہر چند مسیحا مشہور
نامِ بیمار سے تم کو خفقاں ہے کہ جو تھا
دولتِ عشق کا گنجینہ وہی سینہ ہے
داغِ دل، زخمِ جگر مہر و نشاں ہے کہ جو تھا
ناز و انداز و ادا سے تمہیں شرم آنے لگی
عارضی حسن کا عالم وہ کہاں ہے، کہ جو تھا
جاں کی تسکیں کے حالتِ دل کہتے ہیں
بے یقینی کا تری ہم کو گماں ہے کہ جو تھا
اثرِ منزلِ مقصود نہیں دنیا میں
راہ میں قافلۂ ریگ رواں ہے کہ جو تھا
دہن اس روئے کتابی میں ہے، پر نا پیدا
اسمِ اعظم وہی قراں میں نہاں ہے کہ جو تھا
کعبۂ مدِّ نظر، قبلہ نما ہے تاحال
کوئے جاناں کی طرف دل نگراں ہے کہ جو تھا
کوہ و صحرا و گلستاں میں پھرا کرتا ہے
متلاشی وہ ترا آبِ رواں ہے کہ جو تھا
سوزشِ دل سے تسلسل ہے وہی آہوں کا
عود کے جلنے سے مجمر میں دھواں ہے کہ جو تھا
رات کٹ جاتی ہے باتیں وہی سنتے سنتے
شمعِ محفل صنمِ چرب زباں ہے کہ جو تھا
پائے خم مستوں کی ہو حق کا جو عالم ہے سو ہے
سرِ منبر وہی واعظ کا بیاں ہے، کہ جو تھا
کون سے دن نئی قبریں نہیں اس میں بنتیں
یہ خرابہ وہی عبرت کا مکاں ہے کہ جو تھا
بے خبرشوق سے میرے نہیں وہ نُورِ نِگاہ
قاصدِ اشک شب و روز رواں ہے کہ جو تھا
لیلتہ القدر کنایہ نہ شبِ وصل سے ہو؟
اِس کا افسانہ میانِ رَمَضاں ہے کہ جو تھا
دین و دنیا کا طلب گار ہنوز آتشؔ ہے
یہ گدا سائلِ نقدِ دو جہاں ہے کہ جو تھ
آخری تدوین: