خرم شہزاد خرم
لائبریرین
میرے پہلی غزل کی ابھی تک اصلاح نہیںکی گی پھر بھی میں دوسرے غزل بھی ارسال کر رہا ہوں امید ہے اس پر نظر ثانی ہو گی شکریہ خرم شہزاد خرم
اثر کرتا نہیں شکوہ شکایت بھی پرانی ہے
مجھے احساس ہے اس کی یہ عادت بھی پرانی ہے
کوئی رستہ نہیں اس بن جو مجھ کو زندگی دے دے
بہت ہی دور ہے منزل مسافت بھی پرانی ہے
اسے دیکھے بنا آنکھیں برستی ہیں نہ ہنستی ہیں
جدائی بھی نہیں کٹتی اذیت بھی پرانی ہے
یہ تنہا چاند راتوں میں تمہاری یاد کا آنا
یہی تیر محبت ہے محبت بھی پرانی ہے
تری یادیں تری باتیں تری ہر چیز سے جاناں
مجھے بے حد عقیدت ہے عقیدت بھی پرانی ہے
تمہی آنکھوں میں ہو میرے تمہیں دل میں بسایا ہے
تمہی کو چاہتے ہیں اور چاہت بھی پرانی ہے
ترے بن سانس کانٹے اور دھرکن درد کی دستک
گزرتی ہی نہیں خرم قیامت بھی پرانی ہے
خرم شہزد خرم
مجھے احساس ہے اس کی یہ عادت بھی پرانی ہے
کوئی رستہ نہیں اس بن جو مجھ کو زندگی دے دے
بہت ہی دور ہے منزل مسافت بھی پرانی ہے
اسے دیکھے بنا آنکھیں برستی ہیں نہ ہنستی ہیں
جدائی بھی نہیں کٹتی اذیت بھی پرانی ہے
یہ تنہا چاند راتوں میں تمہاری یاد کا آنا
یہی تیر محبت ہے محبت بھی پرانی ہے
تری یادیں تری باتیں تری ہر چیز سے جاناں
مجھے بے حد عقیدت ہے عقیدت بھی پرانی ہے
تمہی آنکھوں میں ہو میرے تمہیں دل میں بسایا ہے
تمہی کو چاہتے ہیں اور چاہت بھی پرانی ہے
ترے بن سانس کانٹے اور دھرکن درد کی دستک
گزرتی ہی نہیں خرم قیامت بھی پرانی ہے
خرم شہزد خرم