اجلا تن - بشریٰ رحمٰن

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ماوراء

محفلین
[align=center:241dc3466e]اجلا تن​
[/align:241dc3466e]



بہادر کے تھانے کے اندر ايس، ايچ او کي ميز کے اوپر ايک برہنہ لاش پڑي ہوئي تھي، لاش کي مس مرايس ناف کے اوپر تاش کے پتے پھيلے ہوئے تھے، کچھ سفاک ہاتھ اپني بازي ميں مگن تھے تھانے کے گيٹ پر حسب معمول چوبدار پہرہ دے رہا تھا، گاؤں کي گليوں کے کتے بھونک بھونک کر تھک گئے تھے، البتہ گاؤں کے بوڑھے چوکيدار کي آواز تھوڑي تھوڑي دير بعد اندھيرے کي چادر کو چير کر اس طرح ابھرتي جيسے کسي نے اس کے نرخرے پر خنجر رکھا ہوا ہو، اور وہ خبر دار چوکيدار کي بجائے ايک لمبي کراہ بلند کرتا ہے۔
رات کے اس پہر ميں بلائيں بھي اتنا بند ہوجاتي ہيں، سمے کے جوگي گيان کے جنگلوں کا رخ کرتے ہيں، مگر اندر کھيل جاري تھا، جب کوئي بازي جيت ليتا، نئے سرے سے بازي شروع ہوجاتي، ہر نئي بازي کے ساتھ نئي بوتل کھلتي اور ہر نئي بوتل کے لاش کو جھنجھورا جاتا، گو لاش کے ہونٹ بند تھے، مگر تھوڑي دير کے بعد کمرے ميں سسکياں سي پھيل جاتيں، پتہ نہيں کسي طرح کھليتے ہوئے کوئي ہاتھ الٹا پڑا کہ لاش ذرا سا کسمائي۔۔۔اور ايک ہلکا سا تعاش اس کے دائيں پپوٹے ميں پيدا ہوا، جيسے زبردستي آنکھ کھول کر وہ اپني کھيتي کے اجڑنے کا منظر ديکھنا چاہتي ہو۔۔۔اسے ايسا لگا جيسے دائيں طرف سفيد پوش کي ايک فوج کھڑي ہے، لاش نے گھبرا کر باياں پپوٹا کھولا، اس طرف بھي سفيد پوش۔۔۔۔لا تعداد۔۔
دھند کي چادر کے اندر اس کے ذہن نے ايک قلا بازي کھائي، وہ فوج کے آنے سےپہلے تسخير ہوچکي تھي اور تسجير ہونے سے پہلے پامال ہو چکي تھي، دنيا کے سکندروں کا عجيب دستور ہے، علاقے فتح کرتے ہيں، جي بھر کے پامال کرتے ہيں، پھر انہيں روند کر آگے نکل جاتے ہيں، منقوعہ علاقوں ميں کوئي قيام نہيں کرتا۔۔۔۔ شايد مفقوعہ علاقوں ميں نا تمام آرزؤں کي بد دعائيں آسيب کي طرف پھيلي ہوئي ہيں۔
لاش نے زبردستي ديکھنے کي سعي کي اس کي ناف پر حکم پر پتہ پڑا تھا، حکم کے يکے کو الانگتي پھانگتي وہ بہت دور نکل گئي، بہادر کے گاؤں کے بيچوں بيچ ايک گوري گوري نہر بہتي تھي اور نہر کے کنارے کنارے جب سورج دنيا پر لال رنگ چھڑک رہا تھا، وہ سر پر پاني سے بھرا مٹکا اٹھائے يوں چل رہي تھي جيسے اس نے پورے سورج کا تھال اٹھا رکھا اور صابو تھي، اور اس پورا نام صابرہ سلطانہ تھا، صابو ابھي سترہ سال کي ہوئي تھي اس کا باپ عرصہ دراز سے ٹھپو کا کام کرتا تھا، ٹھپے جانتے ہوکيا ہوتے ہيں؟ بہادر کے گاؤں کي عورتيں دوپٹے، پلنگ پوش، ميز پوش، اور تکيہ پوش کاڑھ کر گزار اوقات کرتي تھيں، پھول بوٹے کاڑھنے سے پہلے وہ اللہ بچايا سے تھپے لگوانے آتي تھي، اللہ بچايا اپنے آگے ايک انتہائي قديم چوکي رکھے بيٹھا رہتا تھا۔
اس چوکي کے اوپر سالہا سال سے اتنے ٹھپے لگ چکے تھے کہ اب اسکي اپني کوئي رنگت نہ رہي تھي، اس پر بجھا ہوا سفيد کپڑا تجريدي آرٹ کا نمونہ لگتا تھا، جب کوئي تک چڑھي عورت آتي کہتي۔
ديکھو بابا ميرا بو چھن بالکل سفيد ہے اس چوکي پر نہ ڈالو رنگ جائے گا تو بابا کہتا۔۔۔۔
کمے اس چوکي کا رنگ تو اب اتنا پکا ہوچکا ہے کہ يہ اپنا رنگ چھوڑ بھي نہيں سکتي، بابا اللہ بچايا کے ہاتھ ٹھپے لگا لگا کر نيلے کچ ہوچکے تھے، جب صابوں چھوٹي تھي، باب کے آگے روٹي والي چنگير رکھ کر کہتي۔
بابا ہاتھ مل مل کر دھو ليتا تمہارے پيٹ ميں سارا نيل چلا جائے گا۔
بابا ہنسنے لگتا اس حساب سے تو ميں اب تک پورا دريائے نيل پي چکا ہوں۔
يہ دريائے نيل کيا ہوتا ہے بابا۔
تھا کبھي کبھي وہاں کنواريوں کي قربانياں چڑھائي جاتي تھي۔
کيوں بابا۔۔۔۔کيوں۔
جھليے چپ ہوجا۔۔۔۔بابا روٹی توڑنے لگتا۔۔۔۔اتنے سوال کا جواب۔۔
اس گندمي شام ميں پاني سے بھرا مٹکا اٹھائے وہ يوں چل رہي تھي جيسے کہ لہروں کے ساتھ خوش خرامي کي شرط بد رکھي ہو، سورج کي الوداعي شعاعيں ميں اس کے تعشہ ہوئے بدن پر اس زاوئيے پڑ رہي تھيں کہ سب چاند تارے نماياں ہورہے تھے، ململ کي ہري کرتي پر گا گر گا تھوڑا تھوڑا چھلکا چھلکا پاني بھي گرا تھا اور گندمي چہرے کي ملامتوں ميں نئي جواني کا کنوارا خمارا ہر نقش کو جادوئي بنا رہا تھا۔
 

ماوراء

محفلین
اچانک سيد مريد شاہ حسين کا نوجوان بيٹا اپني سرخ رنگ کي پجيروں ميں سڑک پر نمودار ہوا، مراد حسين شاہ پہلي بار گاؤں ميں آيا تھا، يہ گاؤں پر کھوں سے ان کي جاگير تھا، يہيں پلا بڑا تھا، پچھے سال قانون کي تعليم حاصل کرکے شہر سےآيا تھا، آتے جاتے ہوئے اس نے کھيتوں کي اوٹ ميں کچي کلياں اور ادھ کھلے غنچے توڑے تھے، يوں بھي ديہات کي غريب لڑکي کي جواني کا چراغ صرف اتني دير تک لودے سکتا ہے، جب تک کسي وڈيرے نور نظر کي نظر اس پر نہيں پڑجاتي، کبھي کبھي تو اس نے شگفتہ گل کو خوشبو خود اس کے نتھنوں تک نہيں پہنچ پاتي کہ کوئي خوشہ چين بکھيرے کر رکھ ديتا ہے۔
اس لئے مراد حسين شاہ کو يقين تھا کہ اس کے ابرو کے ادني اشارے پر سرور پر کيف سے بھري کچھ دن ہوئے اطلاع آئي کہ ڈاکڑوں نے گلے کا کينسر بتايا ہے ان کے دو آپريشن ہونے تھے اور انہوں نے مراد شاہ کو امريکہ بلوايا تھا، يوں مراد شاہ کو اپنے من چاہے صوبے ادھورے چھوڑ کر امريکا جانا پڑگيا، تين مہينے بعد جب وہ امريکہ سے لوٹا اس کي ہمراہ بڑے شاہ صاحب کي ميت تھي۔
ظاہر ہے سد مريد حسين شاہ کي فوتيدگي سے سياست کي دنيا ميں ايک بڑا خلا پيدا ہوگيا تھا، جس کو پر کرنے کيلئے ان کي خانداني سيت ان کے نو عمر بيٹے کو دے دي گئي، اگر چہ مراد شاہ چھبيس سال پورے ہونے ميں ابھي کچھ ماہ باقي تھے، تاہم چند مہينے سياسي خانگي اثر و رسوخ کے باعث کاغذات جمع کروانے تک پورے ہوچکے تھے۔
مراد شاہ پہلي بار اليکشن لڑرہا تھا، گاؤں ميں جشن کا سماں تھا، جب باقاعدہ اليکشن کمپين اور چاکنگ شروع ہوئي تو لوگ يہ ديکھ کر حيران ہوئے کہ مراد شاہ کے مقابلے ميں نوجوان کھڑا ہوا ہے اور وہ غفورے ماشکي کا بيٹا تھا، يہ لڑکا بچپن سے بڑا ہونہار تھا گاؤں کے اسکول سے ميٹرک پاس کرکے ضلع بھر ميں اول رہا تھا، اور پھر يہ وظيفہ لے کر شہر پڑھنے چلا گيا تھا، پچھلے سال ايم، ايس سي کرکے آيا تھا، کئي بار عرضي لے کر بڑے شاہ صاحب کے پاس نوکري کيلئے گيا تھا، ايک بار اس نے مراد شاہ کو راستہ روک کر التجا کي تھي، کہ اپنے بابا سے کہہ کر نوکري دلواديں، دوسري صبح جب مراد شاہ نے اپنے والد سے سفارش کي تو انہوں نے فرمايا جان بابا، ان کمي کمين لوگوں کو اگر ہم سرکاري ملازمتوں کے اعلي عہدے بانٹتے لگيں گے تو گاؤں ميں ہماري سياست نہيں چلے گئي، نالي کا کيڑا پڑھ جانے سے تخت کا وارث نہيں بن سکتا۔
آج وہي نالي کا کيڑا مراد شاہ کے مد مقابل کھڑا تھا، اور مخالف کے لوگ اس پر خوب پيسہ لگا رہے تھے، ڈھول ڈھمکے باجے گاجے کے ساتھ اس کا چيختا چنگھاڑتا ٹرک گلي گلي نعرے لگاتا پھررہا تھا۔
ہمارا رہبر ظہور اختر
ہمارا چارہ گر ظہور اختر
ہمارا دلبر ظہور اختر
ہمارا افسر ظہور اختر
ظہور اختر۔۔۔۔زندہ باد۔۔۔۔شاہاں دي ٹکر۔۔۔۔۔زندہ باد۔
يہ بات تو خير ہر چوٹے بڑے پر واضع تھي کہ گاؤں ميں شاہوں کي سيٹ کوئي نہيں جيت سکتا، لوگ ان سے نفرت کرنے کے باوجود انہيں ووٹ دينے پر مجبور تھے، البتہ اس بات سے سارے گائوں کا حوصلہ بلند ہوا تھا، کہ سب جانتے ہوئے ماشکيوں کے چھوکرے نے شاہوں کے مقابلے ميں کھڑے ہو کر جي دار کا ثبوت ديا تھا۔
يہ اس روش کي بات ہے جس روش گاؤں ميں پولنگ ہورہي تھي، جابجا خيمے لگے تھے، اور ريکارڈنگ کي آوازيں آرہي تھي، مراد شاہ اپنے درباريوں اور حواريوں کے ہمراہ تھوڑي تھوڑي دير بعد پولنگ اسٹيشنيوں پر رونمائي کيلئے نکلتا، ايک پولنگ اسٹيشن کے شاميانے کےاندر صراحي دار سريے والي صابو ظہور اختر کے سامنے کھڑي اپنے دوپٹے سے اس کے ماتھے کا پسينہ پونچھ رہي تھي، اور وہ اس کے گھر سے لائي ہوئي روٹي جلدي کھا رہا تھا۔
بجلي کي ايک لہر سي اٹھي مراد شاہ کے جسم وجاں ميں سوئے ہوئے زہريلے جذبے جگاگئي۔
اس وقت مراد شاہ نے بخشو کو پکارا۔
بخشو اپنا منہ چھوٹے سائيں کے کان قريب لے گيا اور سر گوشي ميں بولا۔
صابو اب ظہور اختر کي منگ ہے سائيں۔
 

ماوراء

محفلین
اچھا۔۔۔ مراد شاہ نے آنکھوں ميں آيا ہوا لہو دل ميں اتار ليا۔
حلف اٹھانے کے بعد جب پہلي بار مراد شاہ گاؤں ميں واد ہوا تو پہلے موڑ پر علاقے کے ڈپٹي کمشنر نائب تحصيل دار، پنواري اور تھانے کے ايس ايچ او نے اس کا شاندار استقبال کيا، سارے گاؤں ميں شور مچ گيا، مبارکيں دينے والوں کا تانتا بندھ گيا، ڈھول پرتھاپ پڑنے لگي، بستياں خيرات تقيسم کرنے لگيں۔
ليکن ڈيرے پر کچھ اور بھي اہتمام تھا مے بھي اور مجرا بھي تھا، محفل رنگ پر تھي مراد شاہ لڑکھڑا تا ہوا اور بخشو کو ايک طرف لے گيا اور بولا آج رات کا جشن اس کے بغير مکمل نہيں ہو سکتا۔
چھوٹے سائيں بخشو کا رنگ اڑ گيا حکم کريں تو سارے گاؤں کي لڑکياں حاضر کردو مگر صابو نہيں
کيوں اوے ميں نے تجھے اس کي خاطر اتنا پيسا ديا، اگر اس زمين نگل گئي تو زمين کے اندر سے نکال کر لا۔
اللہ واسطے اسکو بخش ديں جي آج رات اس کي ظہور سے شادي ہورہي ہے سارا گاؤں اس کے گھر ميں جمع ہے اور بارات آنے والي ہے آپ پٹاخے سن رہے ہيں نا۔
يہ نہيں ہوسکتا۔۔۔۔مراد شاہ کي آنکھوں ميں اسکے دل کا خون اتر آيا، اس مال زادي اور اسکے يار کو ميں ضرور مزہ چکھاؤں گا۔
مراد شاہ نے محفل ميں بيٹھے ہوئے ايس ايچ او کو اٹھايا اس کے کام ميں کچھ کہا اور پھر کلاشنکوف بردار حواري اس کے ساتھ کردئيے۔
جس وقت نقاب پوش ڈاکوئوں نے حملہ کيا ظہور دولہا بنا کھڑا تھا، اور بہنيں اس کي گھڑي گھڑي دلي پھر رہي تھيں، بندوق کي آوازيں ميں آتش بازي کي آواز بجھ گئي سہاگ کے گيت گاتےہوے باجوں کے گلے رندھ گئے، ظہور کي چوڑي چھاتي پر ايک برسٹ لگا سہرے سميت زمين پر گر گيا۔
صابو نے سنا تو ننگے پائو باہر دوڑي۔۔۔۔
باہر دو نقاب پوش کھڑے تھے حنا اور ابٹن کي گھٹھڑي کو اٹھايا، اور حنا ميں لئے، عروسي جوڑے ميں بے ہوش پڑي صابو کو جب ہوش يا تو اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائي ايک مراد شاہ تھا اور تين وردي پوش تھے گھبرا کر کھڑي ہوگئي۔
تجھے معلوم ہے ظہور نے ہمارے آدمي قتل کئيے ہيں اب اسے پھانسي ہوگي۔
نہيں شاہ سائيں نہيں کلف لگي صابو بے ساختہ اس طرح جھکي کہ چھوٹے سائيں کے قدموں ميں اس کا سر تھا۔
ميرے ظہور کو بچالوں جوکہو گے وہ کرونگي، نوکري کرونگي، برتن مانجھونگي، ميرے ظہور کو چھوڑ دو اللہ کے واسطے اس کي شکل دکھاديں، وہ کہاں ہے اس کو گولي تو نہيں لگي۔
ٹھيک ہے اسے چھوڑ دينگے پر تجھے اس کي قيمت ادا کرني ہوگي اور تو جانتي ہے وہ قيمت کيا ہے۔
صابو نے سر اٹھايا چھوٹے شاہ کو ديکھا پھر ان تينوں کو ديکھا اور سر جھکاليا۔
جاؤ بھي ظہور کو آزاد کردو، مراد شاہ نے ايس ايچ ايو کي طرف ديکھ کر آنکھ ماري۔
مرادشاہ کے ساتھ ان تينوں نے بھي قيمت وصول کي ، اور بار بار کي۔۔۔۔ان ظالموں نے کيا نہيں کيا اس کے ساتھ مگر اس کے لبو سے سي تک نہيں نکلي مراد شاہ اپني وحشت کے ہاتھوں خود ہي تھک گيا تو جھلا کر بولا۔
اس حرام زادي کو وہاں ميز پر لٹا دو اس کے بدن پر ہم تاش کھيليں گے، صابوں کے وجودي تابوت ميں شايد آخري کيل تھي اور شايد آخري بار کسمائي تھي اور شايد اس کے پپوٹے نے آخري بار بلے تھے، اور وہ ان سفيد پوشوں کو اپنے ارد گرد ديکھ کر کچھ کہنا چاہتي تھي۔
کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھولا اور بخشو اس طرح تھر تھراتا ہوا اندر داخل ہوا جيسے قبر سے نکل کر آيا ہو، اس نے نظريں زمين پر گاڑي ہوتي تھيں۔
دونوں ہاتھ باندھ کر بولا چھوٹے سائيں گجر کي آذان ہونے والي ہے۔
مراد شاہ اس غرور سے کھڑا ہوا کہ اس نے دونوں ہاتھوں سے ميز کو الٹا ديا برہنہ لاش فرش پر اوندھي گر گئي۔
سر اس کا کيا کريں۔
يکا يک ايس ايچ او کي فرض شناسي جاگ گئي۔
کيا کرنا ہے، مراد شاہ نے کانچ کي کمر پر پائوں رکھا اور اسے لانگ گيا۔
تھانے کے پچھواڑے ميں گڑھا کھود کر اسے بھي اس ميں ڈال دو ظہور کے ساتھ ساتھ۔۔۔۔۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top