سید زبیر
محفلین
دنیا کی نمائش یہ شوالوں کی طرح تھی
سچائی تو شیطاں کے خیالوں کی طرح تھی
جاتے ہوئے بھی دے گئی یہ دل پہ کئی زخم
وہ دوستی جو پاؤں کے چھالوں کی طرح تھی
بکھرے یہ ہر اک بار'ہر اک بار سنواروں
امید' نہ محبوب کے بالوں کی طرح تھی
آیا تو تھا انصاف کا تو بن کے مسیحا
فطرت تری قاتل کے دلالوں کی طرح تھی
اس کو تو بجھا پائی نہ ذلت کی بھی بارش
اپنی یہ خودی جلتے مثالوں کی طرح تھی
باتیں تو بہت بزم میں امرت پہ ہوئیں تھیں
تاثیر مگر زہر کے پیالوں کی طرح تھی
اجے پانڈے سحاب