باذوق
محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عموماً محدثین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کو اتنے لاکھ احادیث یاد تھیں ۔۔۔ مثلاً :
- امام بخاری رحمة اللہ کو چھ لاکھ احادیث یاد تھیں
- امام احمد بن حنبل رحمة اللہ کو پانچ لاکھ حدیثیں یاد تھیں
- وغیرہ
بلکہ بعض اوقات تو پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں رکھنے والے اہل علم حضرات بھی ایسا ہی کچھ عرض فرماتے ہیں کہ :
23 سالہ عہدِ نبوت میں محال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر باتیں کی ہوں گی لہذا یہ تعداد ہی غلط ہے۔
دراصل معترضین مرفوع القلم ہیں اور اپنی کم علمی کی بنا پر اعتراض کرنے میں حق بجانب ہیں۔
ضروری ہے کہ اس عقدہ کو حل کیا جائے کہ کثرتِ احادیث کی کیا وجوہات ہیں؟ لہذا ذیل میں چند اہم وجوہات درج کی جا رہی ہیں۔
1۔ بلحاظ معانی "سنن" اور "احادیث" میں ایک فرق ہے۔
"سنن" کا تعلق صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واحد ذات سے ہے۔ جبکہ احادیث کا تعلق بےشمار صحابہ اور تابعین کے اقوال و افعال سے بھی ہے۔ لہذا احادیث کی تعداد سنن رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کئی گنا زیادہ ہونا لازمی امر ہے۔
2۔ بلحاظ "اسناد" اور "طرق" بھی ایک واضح وجہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معروف قول ہے : انما الاعمال بالنیات
یعنی یہ سنتِ قولی ہے۔
یہی سنتِ قولی سات سو طریقوں سے جب علیحدہ علیحدہ طور پر روایت کی گئی تو احادیث کے لحاظ سے اس ایک سنت کا شمار "700 احادیث" کے طور پر کیا جاتا ہے۔
اسی قولِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (انما الاعمال بالنیات) کی مثال صحیح بخاری سے لیجئے۔ صحیح بخاری میں یہ قولِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) 7 طرق سے مروی ہے لہذا اسے "7 احادیث" کی حیثیت سے تعبیر کر دیا گیا حالانکہ متن یعنی الفاظِ حدیث و معانی کے اعتبار سے وہ ایک ہی حدیث ہے۔
3۔ دورِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سنت کا مدار کتابت و روایت سے زیادہ تعامل پر تھا۔ مثلاً :
صحابہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو جیسے نماز پڑھتے دیکھتے ویسے ہی پڑھ لیتے۔ یا جو وفود باہر سے مدینہ آتے ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں چند دن اپنے پاس ٹھہرا کر جاتے وقت یہ وصیت کرتے کہ : صلوا کما رایتمونی اصلی
یا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حجة الوداع کے موقع پر فرمایا : خذوا عنی مناسککم
پھر جب صحابہ نے نماز ، حج ، روزہ و زکوٰة اور دوسرے احکام کے کوائف و تفصیلات کو روایت و کتابت کرنا شروع کیا انہی چھوٹے چھوٹے ارشادات سے دفتر کے دفتر تیار ہو گئے۔
4۔ موضوع احادیث کا وجود بھی کثرتِ تعداد کی ایک وجہ ہے۔
بعض محدثین نے صرف صحیح احادیث جمع کیں ، بعض نے ضعیف احادیث بھی شامل کیں لیکن ان کے ضعف کی وضاحت بھی کر دی اور بعض نے تو جو کچھ ان کو ملا وہ سب کچھ درج کر دیا اور بعض نے موضوعات اور ضعیف احادیث کے بالکل الگ الگ مجموعے تیار کئے۔
اس تمام قسم کی مساعی سے یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ محدثین نے کسی بھی بات کو جو منسوب الی الرسول تھی ، ضائع نہیں کیا۔
سوال کیا جا سکتا ہے کہ ضعیف و موضوع روایات کا وجود کیونکر برقرار رکھا گیا اور کیوں انہیں ضائع نہ کر دیا گیا؟
تو اس کا صاف جواب یہ ہے کہ : اگرچہ ان کا یہ فعل بظاہر اچھا معلوم نہیں ہوتا مگر یہ محدثین کی دیانتداری کا کمال بھی ہے۔ فرض کیجئے کہ اگر کوئی موضوع یا ضعیف حدیث ضائع کر دی جاتی تو ۔۔۔۔
تو ہمارے طبقۂ صوفیاء کو یہ کہنے کا موقع میسر آ جاتا کہ :
ہماری طریقت اور خانقاہوں کے جملہ افعال و رسوم ، احادیث ہی سے لئے گئے ہیں ، مگر محدثین نے ایسی احادیث ضائع کر دی ہیں !!
یہی معاملہ دیگر باطل فرقوں کے دلائل کی صورت میں پیش آ سکتا تھا۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت ہے کہ اس نے محدثین کے ذریعے اپنے دین کو کمال تحفظ عطا فرمایا کہ : روایات میں مقبول اور مردود کو الگ الگ کر دیا مگر وجود سب کا برقرار رکھا۔
5۔ موضوع احادیث کے "اسناد" اور "طرق" بھی ایک اہم وجہ ہے۔
محدثین کا کام یہ تھا کہ موضوع احادیث کے متن کے ساتھ ساتھ ان کی اسناد کو بھی یاد رکھنا پڑتا تھا تاکہ ان سے عوام کو متنبہ رکھ سکیں۔ جس طرح سننِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) جب طرق کے لحاظ سے بیان کی جاتی ہیں تو احادیث بیسوں گنا بڑھ جاتی ہیں ، اسی طرح موضوع احادیث بھی طرق کے لحاظ سے کئی گنا زیادہ شمار ہونے لگیں۔
درج بالا تمام وجوہات پر اگر انصاف سے غور و فکر کیا جائے تو ہزاروں لاکھوں احادیث کی کثرت کی اصل حقیقت سے واقف ہونے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنا چاہئے !!
یعنی چھ لاکھ ، پانچ لاکھ ، دس بیس لاکھ وغیرہ کی تعداد باصطلاح محدثین ہے اور وہ اپنی جگہ برحق ہے۔ وما توفیقی الا باللہ۔