Khaaki
محفلین
کیا سے کیا بن گئے افسوس زمانے والے
کتنے سادہ تھے سبھی لوگ پرانے والے
وہ جو رکھتے تھے نہ اپنوں میں اناؤں کو
کھو گئے لوگ وہ رشتوں کو نبھانے والے
وہ جو حق سچ ہی کہا اور سنا کرتے تھے
جن کو آتے تھے نہیں بول بہانے والے
جن کو لگتے تھے مسافر بھی خدا کی نعمت
خالی جیبوں میں بھی لگتے تھے خزانے والے
جن کو ہر شخص ہی اپنوں کی طرح لگتا تھا
جن کے اخلاق بھی ہوتے تھے سہانے والے
اب زمانے کی بھلائی کی فکر کون کرے
سو چکے اب تو زمانے کو جگانے والے
اب تو ہر فعل برائی کا ہی اپنایا جائے
ہیں لگیں سب کو برے بول سیانے والے
خاکی ہوتے تھے بشر بھی کیا جہاں میں ایسے
اب تو لگتے ہیں یہ کردار فسانے والے
کتنے سادہ تھے سبھی لوگ پرانے والے
وہ جو رکھتے تھے نہ اپنوں میں اناؤں کو
کھو گئے لوگ وہ رشتوں کو نبھانے والے
وہ جو حق سچ ہی کہا اور سنا کرتے تھے
جن کو آتے تھے نہیں بول بہانے والے
جن کو لگتے تھے مسافر بھی خدا کی نعمت
خالی جیبوں میں بھی لگتے تھے خزانے والے
جن کو ہر شخص ہی اپنوں کی طرح لگتا تھا
جن کے اخلاق بھی ہوتے تھے سہانے والے
اب زمانے کی بھلائی کی فکر کون کرے
سو چکے اب تو زمانے کو جگانے والے
اب تو ہر فعل برائی کا ہی اپنایا جائے
ہیں لگیں سب کو برے بول سیانے والے
خاکی ہوتے تھے بشر بھی کیا جہاں میں ایسے
اب تو لگتے ہیں یہ کردار فسانے والے