احباب دانش سے اصلاح کی درخواست ہے

Khaaki

محفلین
کیا سے کیا بن گئے افسوس زمانے والے
کتنے سادہ تھے سبھی لوگ پرانے والے

وہ جو رکھتے تھے نہ اپنوں میں اناؤں کو
کھو گئے لوگ وہ رشتوں کو نبھانے والے

وہ جو حق سچ ہی کہا اور سنا کرتے تھے
جن کو آتے تھے نہیں بول بہانے والے

جن کو لگتے تھے مسافر بھی خدا کی نعمت
خالی جیبوں میں بھی لگتے تھے خزانے والے

جن کو ہر شخص ہی اپنوں کی طرح لگتا تھا
جن کے اخلاق بھی ہوتے تھے سہانے والے

اب زمانے کی بھلائی کی فکر کون کرے
سو چکے اب تو زمانے کو جگانے والے

اب تو ہر فعل برائی کا ہی اپنایا جائے
ہیں لگیں سب کو برے بول سیانے والے

خاکی ہوتے تھے بشر بھی کیا جہاں میں ایسے
اب تو لگتے ہیں یہ کردار فسانے والے
 
بہت خوب ۔تکنیکی طور پر تو اساتذہ چیک کریں گے ۔ میں تو اتنا کہہ سکتا ہوں کہ بہت خوبصورت خیالات ہیں۔ خدا سب کو اچھی سوچ عطا فرمائے۔
 

عظیم

محفلین
کیا سے کیا بن گئے افسوس زمانے والے
کتنے سادہ تھے سبھی لوگ پرانے والے
اس غزل میں تو آپ بالکل ہی مختلف نظر آ رہے ہیں، عروضی اعتبار سے اغلاط نہ ہونے کے برابر ہیں ماشاء اللہ
مطلع درست بھی ہے اور اچھا بھی ہے ماشاء اللہ

وہ جو رکھتے تھے نہ اپنوں میں اناؤں کو
کھو گئے لوگ وہ رشتوں کو نبھانے والے
پہلے مصرع میں روانی کی کمی ہے ۔ خاص طور پر دوسرے ٹکڑا میں۔ الفاظ کی نشست بدل کر دوبارہ کہنے کی کوشش کریں

وہ جو حق سچ ہی کہا اور سنا کرتے تھے
جن کو آتے تھے نہیں بول بہانے والے
دوسرا مصرع میں شاید گرامر کی غلطی ہے، 'نہیں' کی بجائے 'نہ' کا محل معلوم ہوتا ہے

جن کو لگتے تھے مسافر بھی خدا کی نعمت
خالی جیبوں میں بھی لگتے تھے خزانے والے
یہ شعر میرے خیال میں درست ہے

جن کو ہر شخص ہی اپنوں کی طرح لگتا تھا
جن کے اخلاق بھی ہوتے تھے سہانے والے
درست

اب زمانے کی بھلائی کی فکر کون کرے
سو چکے اب تو زمانے کو جگانے والے
'فکر' میں ک پر جزم ہے ۔ درد کے وزن پر آئے گا

اب تو ہر فعل برائی کا ہی اپنایا جائے
ہیں لگیں سب کو برے بول سیانے والے
'ہیں لگیں' اچھا نہیں لگ رہا ۔ اس کے علاوہ خیال بھی باقی غزل کے مقابلے میں اچھا نہیں۔ یہ شعر نکالا بھی جا سکتا ہے

خاکی ہوتے تھے بشر بھی کیا جہاں میں ایسے
اب تو لگتے ہیں یہ کردار فسانے والے
پہلا مصرع بحر سے خارج ہے یا 'کیا' کو 'ک' تقطیع کرنے کی وجہ سے ایسا محسوس ہو رہا ہے
 

Khaaki

محفلین
کیا سے کیا بن گئے افسوس زمانے والے
کتنے سادہ تھے سبھی لوگ پرانے والے
اس غزل میں تو آپ بالکل ہی مختلف نظر آ رہے ہیں، عروضی اعتبار سے اغلاط نہ ہونے کے برابر ہیں ماشاء اللہ
مطلع درست بھی ہے اور اچھا بھی ہے ماشاء اللہ

وہ جو رکھتے تھے نہ اپنوں میں اناؤں کو
کھو گئے لوگ وہ رشتوں کو نبھانے والے
پہلے مصرع میں روانی کی کمی ہے ۔ خاص طور پر دوسرے ٹکڑا میں۔ الفاظ کی نشست بدل کر دوبارہ کہنے کی کوشش کریں

وہ جو حق سچ ہی کہا اور سنا کرتے تھے
جن کو آتے تھے نہیں بول بہانے والے
دوسرا مصرع میں شاید گرامر کی غلطی ہے، 'نہیں' کی بجائے 'نہ' کا محل معلوم ہوتا ہے

جن کو لگتے تھے مسافر بھی خدا کی نعمت
خالی جیبوں میں بھی لگتے تھے خزانے والے
یہ شعر میرے خیال میں درست ہے

جن کو ہر شخص ہی اپنوں کی طرح لگتا تھا
جن کے اخلاق بھی ہوتے تھے سہانے والے
درست

اب زمانے کی بھلائی کی فکر کون کرے
سو چکے اب تو زمانے کو جگانے والے
'فکر' میں ک پر جزم ہے ۔ درد کے وزن پر آئے گا

اب تو ہر فعل برائی کا ہی اپنایا جائے
ہیں لگیں سب کو برے بول سیانے والے
'ہیں لگیں' اچھا نہیں لگ رہا ۔ اس کے علاوہ خیال بھی باقی غزل کے مقابلے میں اچھا نہیں۔ یہ شعر نکالا بھی جا سکتا ہے

خاکی ہوتے تھے بشر بھی کیا جہاں میں ایسے
اب تو لگتے ہیں یہ کردار فسانے والے
پہلا مصرع بحر سے خارج ہے یا 'کیا' کو 'ک' تقطیع کرنے کی وجہ سے ایسا محسوس ہو رہا ہے
بہت بہت شکریہ میں انشاء اللہ ساری غلطیاں درست کروں گا آگے مزید بہتری لاؤں گا انشاء اللہ
 
Top