حسان خان
لائبریرین
کوئی بھی مقالہ یا مضمون لکھے وقت میرے ساتھ مسئلہ یہ درپیش آتا ہے کہ شروع کہاں سے کیا جائے، یہ مضمون بھی کوئی استثنا نہیں اس لیے یہاں بھی اسی الجھن کا شکار ہوں۔ خیر خدا کا نام لے کر کہیں نہ کہیں سے شروع کرتا ہوں۔ یہ تو اب قریب قریب سب جان ہی چکے ہیں کہ اس پارٹی کا پس منظر کیا تھا اور یہ کس کے دماغ کی اپج تھی اس لیے اس بارے میں دیگر خامہ فرسائی کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس اتنا جان لیجئے کہ میں سب احباب سے ملنے کے لیے بیتاب تھا۔ رات بھر ہیجان کے مارے سو نہ سکا (ویسے شب خوابی کی پرانی عادت بھی ہے)۔ مگر اتفاق دیکھیے کہ جب سویا تو مقررہ وقت تک نہ اٹھ سکا۔ دو بجے مزارِ قائد پر پہنچنا تھا اور میں سوا دو بجے تک خوابِ گراں میں مگن تھا۔ وہ تو خدا بھلا کرے امین بھائی کا کہ انہوں نے اُس وقت کال کر کے اٹھایا اور یاد دلایا کہ بھئی آج عید ملن ہے، آ جاؤ۔ خیر میں دس منٹ کے اندر ہی تیار ہو کر مزارِ قائد کے لیے نکل پڑا۔ سڑک پر آیا تو پانچ منٹ تک کوئی بس ہی نہیں دکھی، ورنہ گلستان کوچ میں بیٹھ کر سیدھا مزارِ قائد پہنچ جاتا۔ میں پہلے ہی لیٹ ہو چکا تھا اس لیے ایک چنگچی رکشے کو رکوا کر اس میں سوار ہو گیا اور نیپا چورنگی اتر گیا۔ وہاں فورا ہی جی تیرہ بس مل گئی جو سیدھے مزارِ قائد تک لے گئی۔ اب طے یہ پایا تھا کہ مجھے مزار کے مرکزی دروازے پر پہنچ کر امین بھائی کو کال کرنی تھی اور وہ آ کر مجھے اندر لے جاتے، میں انہیں کال پر مطلع کر کے اندر آیا اور اندر راستے میں ان سے فہیم بھائی کے ہمراہ ملاقات ہو گئی۔ امین بھائی سے شناسائی تو ایک عرصے سے ہے مگر خدا کے فضل و کرم سے ان سے آج ملنا نصیب ہوا۔ بہت خوشی ہوئی ان سے مل کر، پھر فہیم بھائی سے متعارف ہو کر ہم اس درخت کی طرف رواں ہو گئے جس کی چھاؤں میں باقی احباب بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں سب سے میں متعارف اور بغل گیر ہوا۔ جب مہدی نقوی حجاز سے تعارف ہوا تو میں بھونچکا رہ گیا، جو میں نے ان حضرت کے متعلق تصور کیا ہوا تھا یہ اس سے قطعی مختلف نکلے۔ میرے کیا ہم سب کے لیے یہ ایک خوشگوار تعجب تھا۔ اور پھر میں میر انیس بھائی کو 80 سال کا امروہوی بزرگ سمجھ رہا تھا، وہ بھی ایک الگ ہی چیز نکلے۔
پھر وہاں بیٹھ کر ہم سب تھوڑی دیر اردو فونٹ اور نستعلیق کے متعلق گفتگو کرتے رہے، خیر سے حضرتِ جناح کے لیے ہم نے وہیں دل ہی دل میں فاتحہ خوانی بھی کر لی۔ پھر فیصلہ ہوا کہ ہمیں برنس روڈ میں واقع فوڈ سینٹر چلنا چاہیے، تو ہم بائیکوں پر سوار ہو کر وہاں پہنچ گئے۔ تھوڑی دیر تک تو میں اور فہد ابو شامل بھائی وہاں گفتگو کرتے رہے۔ میں سمجھتا تھا کہ پاکستان میں صرف مجھے ہی ترک زبان سے محبت کا لاعلاج مرض لاحق ہے، مگر وہاں آشکار ہوا کہ فہد بھائی تو مجھ سے بھی زیادہ قوم اتراک، ترکی اور ترکی زبان میں دلچسپی رکتھے ہیں اور ان کا وسیع علم کسی کے لیے بھی رشک آور ہو سکتا ہے۔ ہماری گفتگو کا بنیادی موضوع اتاترک کے ہاتھوں ترکی زبان کے خط کی تبدیلی اور اس کے منتقی نتائج تھی اور اسی کے متعلق ہم اپنی آرا سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے رہے۔ پھر ہم نے ایک دوسرے کو اپنی ترکوں سے وابستگی کے اسباب سے بھی آگاہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد سب نے اپنی من پسند چیزوں کا آرڈر دے دیا، اور چونکہ کھانا آنے میں دیر تھی تو ہم نے وہیں مشاعرہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ احمد بھائی، مزمل بھائی، اور امین بھائی نے باری باری اپنی تخلیقات پیش کیں اور خوب داد وصول کیں۔ آخر میں فہیم بھائی نے اپنی واٹ والی فی البدیہہ نظم سنا کر سب کو مسکرانے پر مجبور کر دیا۔ وہیں امریکہ سے ابنِ سعید بھائی کی کال بھی آئی تھی۔ طعام اور بل وغیرہ سے فارغ ہو کر ہم نے چائے کے ڈھابے پر دھاوا بولنے کا فیصلہ کیا، لہذا کسی چائے والے کی تلاش میں برنس روڈ کی گلیوں کی خاک چھاننے نکل پڑے۔
تھوڑی دور ہی ہمیں ایک چائے والا مل گیا اور ہم وہاں باہر ایک چھوٹی میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھ گئے اور اپنی گفتگو کے سلسلے کو دوبارہ جاری کیا۔ اردو زبان، علاقائی زبانیں اور ان کو درپیش خطرات، ترکی زبان کی تاریخ، اردو میں اصلاح سازی کی مشکلات غرض ان جیسے کئی موضوعات پر بڑی سیر حاصل گفتگو ہوئی جس میں سب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پھر میں نشست تبدیل کر مہدی بھائی کے ساتھ بیٹھ گیا اور ان سے محوِ کلام ہو گیا۔ پتہ یہ چلا کہ وہ تو مجھ سے بھی جوان تر ہیں، اور بس یہی نہیں وہ اتنی سی عمر میں فارسی زبان میں غزلیں بھی کہتے ہیں، اور اپنی فارسی غزلیں بھی نمونے کے طور پر مجھے سنائیں۔ بس پھر کیا تھا، میں تو ان کا مرید ہو گیا اور ان کا ہاتھ چوم کر درخواست کی کہ سرکار مجھے اپنی شاگردی میں لے لیجئے جو انہوں نے خندہ زن ہو کر قبول کر لی۔ خدا انہیں سلامت رکھے، یہی درحقیقت اس محفل کے کوہِ نور ہیں۔ جب سترہ سالگی میں علم و فراست کا یہ عالم ہے تو پختگی تک پہنچتے پہنچے تو یہ تباہی مچا دیں گے۔ جنابِ والا اگر آپ پڑھ رہے ہیں تو جان لیجئے کہ بہت امیدیں وابستہ ہیں ہم سب کی آپ سے۔
تھوڑی دیر بعد مشاعرے کا دوسری نشست کا آغاز ہوا اور ایک بار پھر احمد بھائی اور مزمل بھائی نے اپنی اپنی غزلیں پیش کیں جو خوب پسند کی گئیں اور جن کے اشعار مکررا سنے جاتے رہے۔ یوں مغرب کی اذان ہوئی اور ہم نے پارٹی کے باقاعدہ اختتام کا فیصلہ کیا۔ امین بھائی نے کہا کہ وہ مجھے میرے گھر کے نزدیک تک چھوڑ دیں گے تو میں ان کی بائیک پر میر انیس صاحب کے ساتھ سوار ہو گیا اور ہم اپنی منزل کی جانب چل پڑے۔ امین بھائی نے پہلے انیس بھائی کو ان کے گهر چھوڑا اور پھر مجھے ناگن چورنگی پر چھوڑ دیا جہاں سے بس پکڑ کر میں گھر پہنچ گیا۔ اور یوں ایک یادگار پارٹی اور ایک یادگار دن اپنے اختتام کو پہنچا۔ آج بہت سے نئے دوستوں سے شناسائی ہوئی جن سے تعلق ہونا میرے لیے خوشبختی کی بات ہے اور جن میں اور مجھ میں بیشتر باتیں اور مشاغل مشترک ہیں۔ امین بھائی کا ایک بار پھر شکریہ کہ انہوں نے اس اردو محفل پر مدعو کیا اور خلیل الرحمن بھائی کا بھی مشکور ہوں کہ انہوں نے اس پارٹی پر مدعو کیا حالانکہ مجھے اس اردو محفل پر آئے ایک مہینہ بھی پورا ٹھیک سے نہیں گزرا ہے۔ اور آپ سب کا شکریہ جنہوں نے میری روداد پڑھنے کے لیے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحے نکالے۔ ہمیشہ خوش رہیے۔