اجمل خان

محفلین
بچہ دنیا میں آتے ہی احتجاج کرتا ہے۔

احتجاج کرنا انسان کی جبلت میں شامل ہے اور اس کا پیدائشی حق ہے۔

احتجاج کرنا جائز ہے۔ احتجاج جائز امور کیلئے جائز طریقے سے کیا جائے تو یہ مستحسن ہے اور اس احتجاج سے خیر کا پہلو نکل آتا ہے‘ ملک و ملت کی تقدیریں بدل جاتیں ہے۔

لیکن ہمارے ملک میں جو احتجاج کیا جاتا ہے جسے عام اردو میں ’’ ہڑتال‘‘ اور انگریزی میں STRIKE کہتے ہیں اس سے ’’ ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے‘‘۔

مغرب میں مروجہ احتجاج کا طریقہ یعنی STRIKE صنعتی انقلاب کے دوران شروع ہوا جو پہلے غیر قانونی رہا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قانونی اور جمہوریت کا حصہ بن گیا۔

بر صغیر میں موہن داس کرم چند گاندھی نے سب سے پہلے (1918میں) احتجاج کا یہ طریقہ یورپ سے در آمد کیا اور اس کا نام دیا ’’ ہڑتال ‘‘ ۔

گاندھی گجرات کا رہنے والا تھا اور گجراتی زبان سے ہی ’’ ہڑتال ‘‘ کا لفظ اخذ کیا جس کے معنی ہیں ’ ہر جگہ تالا ‘ ۔۔۔۔ یعنی ’ ہر جگہ تالا ‘ لگا دیا جائے ۔

دیکھا جائے تو مروجہ طریقۂ احتجاج یا STRIKE یا ہڑتال گاندھی کا ایجاد کردہ ہے۔ احتجاج کے یہ بدترین طریقہ ہے لیکن پھر بھی یہ جمہوریت کا حصہ ہے اور جمہوری نظام میں جائز ہے لیکن اسلامی نقطۂ نظر سے حرام ہے۔

مروجہ احتجاج یا ہڑتال کی جاتی ہے بازاروں اور دفتروں کوزبردشتی بند کرواکر‘ راستے بلاک کرکے‘ ہوائی فائرنگ اور جگہ جگہ آگ جلا کر عوام میں خوف و ہراس پیدا کرکے‘ سڑکوں پر اشتعال انگیز بینرز لگاکر اور بینرز اٹھائے ریلیاں نکال کر‘ دھرنا دے کر‘ اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعےفریقِ ثانی پر بہتان لگا کر اور گالی گلوچ کرکے۔ دوکانوں‘ مکانوں ‘ گاڑیوں اور غریب کی اکلوتے ٹھیلے وغیرہ کی توڑ پھوڑ کرکے اور انہیں جلاکر۔ کوئی ایسے احتجاج یا ہڑتال کی خلاف ورزی کرے تو اس کے جان اور مال کو تقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ اسے بھی قتل کرکے وغیرہ وغیرہ ۔

یعنی مروجہ احتجاج یا ہڑتال ’’ ہر طرح کی ظلم و زیادتی کے ساتھ عوام الناس میں افرتفری‘ خوف و ہراس اور امن و امان کا مسٔلہ پیدا کرنے‘‘ کا نام ہے۔

’’ ہڑتال ‘‘ کی کال دینا اور اس میں شرکت کرنا ناجائز اور حرام ہے‘ چاہے یہ اسلام کے نام پر یا عوام کی فلاح و بہوبود کیلئے ہی کیوں نہ ہو۔ اس میں کوئی خیر‘ کوئی بھلائی نہیں بلکہ شر ہی شر اور نقصان ہی نقصان ہے۔

۱۔ اس کے حرام ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ غیر مسلموں کا طریقۂ احتجاج ہے جو ظلم کوظلم سے اور برائی کو برائی سے مٹانے کا طریقہ ہے جبکہ اسلام کا طریقہ کار ہے:

ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ (سورة المؤمنون 96)
" آپ برائی کو احسن (سب سے بہتر) طریقہ سے دفع کریں۔"

۲۔ مروجہ احتجاج فتنہ اور فساد کا موجب ہے جبکہ اسلام کی تعلیمات ہے:

وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ ... (سورة الأعراف 56)
" اور زمین میں فساد برپا نہ کرو "

... وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ... (سورة البقرة : 119)
" اور فتنہ قتل سے زیاده سخت ہے"

۳۔ ہڑتال کی وجہ کر روزانہ اجرت پر کام کرکے کھانے والےغریب و مسکین کام نہیں کرسکتے لہذا وہ اور انکے بچے بھوکے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بیمار علاج کیلئے بھی نہیں جا سکتے۔ بے شمار لوگ اذیت میں دن گزارتے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کی اکثریت کو اذیت پہنچتی ہے اور مسلمانوں کو ایذا پہنچانا کبیرہ گناہ ہے، قرآن کریم میں ہے:

وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا (الأحزاب:۵۸)
" اور وہ لوگ جو ناحق مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا پہنچاتے ہیں انھوں نے یقیناً بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھا یا۔"

رسول اللہﷺ نے فرمایا:
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔ (متفق علیہ) توثیق الحدیث : اخرجہ البخاری (/۵۳۱۔ فتح)و مسلم (۴۱)

۴۔ ظلم اور زیادتی کے بغیر کوئی ہڑتال کامیاب نہیں ہوتا ۔ جہاں ہڑتال ہوگا وہاں ظلم ہوگا۔ صرف انفرادی سطح پر ہی نہیں بلکہ سماجی اور ریاستی سطح پر بھی ہڑتال کے ذریعے ایک فریق دوسرے فریق پر ظلم کرتا ہے ۔

اور اﷲ ظالموں کو پسند نہیں کرتا،
... وَاللَّہُلَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (سورة آل عمران: 57)

۵۔ مروجہ احتجاج یا ہڑتال کی جاتی ہے عوام کو حقوق دلانے کیلئے یا پھر ظلم و زیادتی کرنے والے کو سزا دلوانے کیلئے لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ عوام کو کی جائز مطالبات پورے ہوئے ہوں یا اصل قصوروار کو سزا ملی ہو بلکہ الٹا بے شمار بے قصور عوام کو ہی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ جبکہ اللہ کا قانون ہے:

۔۔۔ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ ۔۔۔ (سورة الأنعام: 164)
" اور ہر شخص جو بھی (گناہ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے۔"

۶۔ مروجہ احتجاج یا ہڑتال میں مسلمان کی جان اور مال عزت و آبرو کو تقصان پہنچایا جاتا ہے جبکہ اسلام مسلمان کی جان‘ مال‘ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانا حرام قرار دیتا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
" ہر مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ہے، یعنی اس کا مال، اس کی عزت اور اس کا خون۔ ہر مسلمان کو اس شر سے بچنا چاہیے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔'' (ابوداؤد)

۷۔ مروجہ احتجاج یا ہڑتال میں کسی کو قتل کر دینا عام سی بات ہے جبکہ اللہ کا فرمان ہے:

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (سورة النساء : 93)
" اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وه ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے"

۸۔ مروجہ احتجاج یا ہڑتال حرام و ناجائز طریقے سے حکومت پر قابض ہونے کا ایک طریقہ ہے اور یہ خروج کی ہی ایک شکل ہے۔ اس طریقے سے اگر حکومت پر قبضہ کر بھی لیا جائے تو بھی اس سے کوئی خیر نہیں آئے گی کیونکہ اللہ کا فرمان ہے:

... وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ...( سورة الأعراف 58)
" اور جو خراب اور ناکارہ ہے (اس سے) تھوڑی سی بے فائدہ چیز کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔"

ہمیشہ سے وطنِ عزیز میں حکومت گرانے کیلئے یا حکومت پر ناجائز طریقے سے قابض ہونے کیلئے مروجہ احتجاج یا ہڑتال کا راستہ اپنایا گیا اور ملک کو اربوں کھربوں کا نقصان پہنچا کر عملاََ کمزور کیا گیا۔ عوام الناس کی جان اور مال کا نا تلافی نقصان کیا گیا۔ اسی ناجائز احتجاج کے بل بوتے پر ملک دو لخت ہوا ۔

لیکن ملک میں چیونکہ کفریہ جمہوری نظامِ حکومت ہے اور یہ اسی جمہوریت کی ناجائز اولاد ہے۔ اس مروجہ احتجاج یا ہڑتال کو قانونی تحفظ حاصل ہے‘ اس کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ لیکن ملک و ملت کو اگر مزید نقصانات سے بچانا ہے تو اسکے خلاف قانون بنانا ہوگا اور اگر قانون نہیں بن سکتا تو اس کے خلاف عوام الناس کی ذہن سازی کرنی ہوگی کہ یہ اصل میں احتجاج نہیں بلکہ خروج کی ایک شکل ہے ۔

اگرچہ جمہوریت بھی ناجائز ہے لیکن جب ایک حکومت آجائے تو اس کے خلاف خروج کبیرہ گناہ ہے۔

واللہ اعلم باالصواب
 
مدیر کی آخری تدوین:

ثاقب عبید

محفلین
بہت خوب۔ مسلمان کا کام نہیں کہ کسی کو ایذا دے۔ اپنے حق کیلئے آواز بیشک اٹھائی جائے اور مطالبہ کیا جائے لیکن اگر انداز ایسا اپنایا جائے جس سے عوام الناس کو نقصان ہو تو یہ کیونکر درست ہوسکتا ہے۔ میرے خیال میں اب ارباب اقتدار نے سمجھداری سے کام لیتے ہوئے ان احتجاجی طریقوں پر پابندی لگادینی چاہئے جن سے سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
 
Top