ملک میں ایمرجینسی کے نفاذ کے ساتھ ہی مخلتف طبقہ ِ فکر نے اپنی سوچ اور وساطت کے مطابق ایک احتجاجی سلسلہ شروع کیا ہے ۔ جس میں طالب علموں کی حمایت بھی شامل ہوگئی ہے ۔ گو کہ ابھی ایک عام آدمی اس احتجاج کا بھرپور حصہ نہیں بنا ہے مگر امید کی جاسکتی ہے کہ یہ سلسلہ دراز ہوا تو شاید ایک عام آدمی کو اس بات کا ادراک ہوسکے کہ وہ بھی احتجاج کرے ۔ مگر میرے ذہن میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ احتجاج ۔۔۔۔ آخر کس کے لیئے ۔۔۔۔ ؟
میں مسلسل ٹاک شوز دیکھتا رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں ۔ بھانت بھانت کے سیاستدان اور لیڈر آرہے ہیں ۔ ان کی گفتگو سنیں ۔ سب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں ۔ مشرف گو ، مشرف آمر ۔ اور پھر بات اس سے نکل کر ایم ایم اے ، پیپلیز پارٹی ، مسلم لیگ وہ گروپ ، مسلم لیگ وہ گروپ کی آپس میں چپلقش اور ایک دوسرے پر الزام تراشی تک محدود ہے ۔ کسی نے ایک لفظ بھی پاکستان کی مظلوم اور غریب عوام کے حق میں ادا نہیں کیا ہے ۔ جب ایمرجینسی ، الیکشن اور پھر اقتدار کی دوڑ میں مصورف ہیں ۔ ہر کوئی چاہ رہا ہے کہ اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر اپنے پچھلے ازالے پورے کرے ۔ یہ سب سیاسی شعبدہ باز کیا ہمارے دیکھے بھالے نہیں ہیں ۔ ان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ایمرجینسی اور ملک میں افراتفری کا رونا روئیں ۔ کیا انہوں نے اپنے دور میں یہ تباہی اور کھیل نہیں کھیلے ۔ کیا پاکستان کے عوام نہیں جانتے کہ ان لیڈروں نے ان کو صرف اقتدار کی طرف رواں گاڑیوں میں ایک ایندھن کی طور پر استعمال کیا ہے ۔ انہیں صرف گالیوں ، پھانسیوں ، کوڑوں ، جیلوں اور لاٹھی چارجوں کے لیئے مخصوص کیا ہوا ہے ۔ اور لیڈر شپ ان کی قبروں پر اپنے قدم جما کرایوانِ اقتدار تک پہنچنا اپنا حق سمجھتی ہے ۔ اور جب مصبیت آتی ہے تو ان کو جیلوں اور مار کھانے کے لیئے چھوڑ کر بیرونِ ملک فرار ہوجاتی ہے ۔ اور پھر جہاں سے جہموریت اور اس کے لیئے ہر قسم کی قربانی کے بیانات دینا اپنی مصروفیات کا حصہ بنا لیتی ہے ۔
پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک بے تحاشہ فاختائیں دکھ جھیل رہیں ہیں ۔ اور صرف چند سو کوے انڈے کھانے پر لگے ہوئے ہیں ۔ کبھی ان انڈوں کو فرائی کر لیا تو کبھی آملیٹ بنا کر نوش کر لیا ۔ اور کچھ کوے تو ان انڈوں کو کچا کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ یہ وہ کوے ہیں جو یہی کہتے ہیں کہ ہم پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے ، آگے دیکھنا ہمارا کام ہے ۔ لاکھوں سیاسی کارکن اس جہموریت کےسفر میں اپنی زندگیاں تباہ کر بیٹھے ، اپنے گھر پھونک بیھٹے ۔ مفرور ہوگے ، دربدر ہوگئے ۔مگر کسی لیڈر کے پاس ان کے لیئے ایک لفظ بھی نہیں ہے جو وہ ان کے لیئے کم از کم تسلی کے طور پر ہی استعمال کر سکیں ۔ کسی حقیر کارکن کے پاس جا کر اس سے تسلی کا ایک لفظ کہنے کے بجائے یہ لیڈرز امریکی سینٹروں سے ملاقات کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اپنی زندگیاں تباہ کرنے والے عوام کی قمست یہی ہے کہ وہ اپنی قربانیوں پر فخر کرتے رہیں ۔ نہ عام آدمی کو عزت نصیب ہونی ہے اور نہ ہی یہ مہنگائی کی عفریت کا خاتمہ ہونا ہے ۔ نہ انہیں اور ان کے بچوں کو تعلیم کے مواقع میسر ہونے ہیں اور نہ ہی ان کو صحت کی بنیادی سہولیات ملنی ہیں ۔ ان کا نصیب اب یہی رہ گیا ہے کہ وہ ان لیڈروں کی لمبی لمبی گاڑیوں کے چوڑے چوڑے ٹائروں کے آگے پیچھے بھاگ کر جیوے بھئی جیوے اور آوے بھئی آوے کے نعرے لگاتے پھریں ۔ فرانس سے پانی منگوا کر پینے والوںکو نلکوں سے پانی کے ساتھ نکلنے والی غلاظت کا احساس کیسے ہوسکتا ہے ۔ ائیرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھنے والوںکو تانگے اور سرکاری بسوں پر لٹکنے والوں کی مشکلات کا اندازہ کیونکر ہوسکتا ہے ۔ جن کے جانور ائیر کنڈیشنڈ ماحول میں رہتے ہیں ۔ انکا بھلا ایسے لوگوں سے کیا واسطہ جن پر بجلی بند کریں تو وہ مرجاتے ہیں اور استعمال کریں تو بلوں کو ہاتھوں خود اپنا گلا گھونٹ دیتے ہیں ۔ یورپ کے بڑے بڑے اسکولوں میں اپنے بچوں کا داخل کروانے والے غریب عوام کے اس کرب کو کسیے سمجھیں کہ چند سکوں کی کمی کی خاطر یہ عوام اپنوں بچوں کا اسکول سے نام کٹوانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ اور پھر لیٹ فیس کے نام پر معصوم ذہنوں میں اپنی محرومی کے بارے میں کیسے کیسے سوال اٹھتے ہونگے ۔ جب ان کو بھوک کا علم ہی نہیں تو پھر یہ کیا جانیں کی بھوکی عوام کیا ہیں ۔
مشرف جائے ، یا کوئی اور جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ایک عام آدمی کا عام آدمی کے عہدے پر ہی فائز رہنا ہے ۔ اس کا کام ہی غریب اور مہنگائی کی چکی میں پسنا ہے ۔ اور کوئی آ بھی جائے تو کونسا اس کا غمگسار ہونا ہے ۔یہ اقتدار تو بڑے لوگوں کا کھیل ہے ۔ اور کھیلنے کا حق بھی انہی لوگوں کو ہے ۔ عوام کا کام صرف ہر کسی کے گول پر تالی بجانا ہے ۔ بھنگڑے ڈالنا ہے یا پھر اپنی ٹیم کے ہارنے پر لڑنا مرنا ہے ۔ یہ نظام ہے ۔ جو ہم بدلنا نہیں چاہتے ۔ اس کے لیئے احتجاج نہیں کرنا چاہتے ۔ کاش کوئی بھوک سے بلبلاتا ہوا ، بل ادا نہ ہونے پر میٹر کٹوانے والا ، اسکو ل کی فیس نہ بھرنے والا کوئی عام آدمی ان خواہشات کلبلاتے ہوتے لاکھوں کروڑوں مجبوروں کا لیڈر بن کر آگے آسکے ۔ مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم احتجاج کسی لیڈر کے لیئے ، یا کسی آمر کے خلاف نہ کریں بلکہ اس نظام کے خلاف کریں جہاں اقتدار صرف چند لوگوں کے درمیان ٹینس کی گیند بنی ہوئی ہے ۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ہر احتجاج صرف اپنی بے بسی اور ناعقلی کا ہی مذاق اڑانا ہے اور کچھ بھی نہیں ۔
میں مسلسل ٹاک شوز دیکھتا رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں ۔ بھانت بھانت کے سیاستدان اور لیڈر آرہے ہیں ۔ ان کی گفتگو سنیں ۔ سب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں ۔ مشرف گو ، مشرف آمر ۔ اور پھر بات اس سے نکل کر ایم ایم اے ، پیپلیز پارٹی ، مسلم لیگ وہ گروپ ، مسلم لیگ وہ گروپ کی آپس میں چپلقش اور ایک دوسرے پر الزام تراشی تک محدود ہے ۔ کسی نے ایک لفظ بھی پاکستان کی مظلوم اور غریب عوام کے حق میں ادا نہیں کیا ہے ۔ جب ایمرجینسی ، الیکشن اور پھر اقتدار کی دوڑ میں مصورف ہیں ۔ ہر کوئی چاہ رہا ہے کہ اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر اپنے پچھلے ازالے پورے کرے ۔ یہ سب سیاسی شعبدہ باز کیا ہمارے دیکھے بھالے نہیں ہیں ۔ ان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ایمرجینسی اور ملک میں افراتفری کا رونا روئیں ۔ کیا انہوں نے اپنے دور میں یہ تباہی اور کھیل نہیں کھیلے ۔ کیا پاکستان کے عوام نہیں جانتے کہ ان لیڈروں نے ان کو صرف اقتدار کی طرف رواں گاڑیوں میں ایک ایندھن کی طور پر استعمال کیا ہے ۔ انہیں صرف گالیوں ، پھانسیوں ، کوڑوں ، جیلوں اور لاٹھی چارجوں کے لیئے مخصوص کیا ہوا ہے ۔ اور لیڈر شپ ان کی قبروں پر اپنے قدم جما کرایوانِ اقتدار تک پہنچنا اپنا حق سمجھتی ہے ۔ اور جب مصبیت آتی ہے تو ان کو جیلوں اور مار کھانے کے لیئے چھوڑ کر بیرونِ ملک فرار ہوجاتی ہے ۔ اور پھر جہاں سے جہموریت اور اس کے لیئے ہر قسم کی قربانی کے بیانات دینا اپنی مصروفیات کا حصہ بنا لیتی ہے ۔
پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک بے تحاشہ فاختائیں دکھ جھیل رہیں ہیں ۔ اور صرف چند سو کوے انڈے کھانے پر لگے ہوئے ہیں ۔ کبھی ان انڈوں کو فرائی کر لیا تو کبھی آملیٹ بنا کر نوش کر لیا ۔ اور کچھ کوے تو ان انڈوں کو کچا کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ یہ وہ کوے ہیں جو یہی کہتے ہیں کہ ہم پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے ، آگے دیکھنا ہمارا کام ہے ۔ لاکھوں سیاسی کارکن اس جہموریت کےسفر میں اپنی زندگیاں تباہ کر بیٹھے ، اپنے گھر پھونک بیھٹے ۔ مفرور ہوگے ، دربدر ہوگئے ۔مگر کسی لیڈر کے پاس ان کے لیئے ایک لفظ بھی نہیں ہے جو وہ ان کے لیئے کم از کم تسلی کے طور پر ہی استعمال کر سکیں ۔ کسی حقیر کارکن کے پاس جا کر اس سے تسلی کا ایک لفظ کہنے کے بجائے یہ لیڈرز امریکی سینٹروں سے ملاقات کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اپنی زندگیاں تباہ کرنے والے عوام کی قمست یہی ہے کہ وہ اپنی قربانیوں پر فخر کرتے رہیں ۔ نہ عام آدمی کو عزت نصیب ہونی ہے اور نہ ہی یہ مہنگائی کی عفریت کا خاتمہ ہونا ہے ۔ نہ انہیں اور ان کے بچوں کو تعلیم کے مواقع میسر ہونے ہیں اور نہ ہی ان کو صحت کی بنیادی سہولیات ملنی ہیں ۔ ان کا نصیب اب یہی رہ گیا ہے کہ وہ ان لیڈروں کی لمبی لمبی گاڑیوں کے چوڑے چوڑے ٹائروں کے آگے پیچھے بھاگ کر جیوے بھئی جیوے اور آوے بھئی آوے کے نعرے لگاتے پھریں ۔ فرانس سے پانی منگوا کر پینے والوںکو نلکوں سے پانی کے ساتھ نکلنے والی غلاظت کا احساس کیسے ہوسکتا ہے ۔ ائیرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھنے والوںکو تانگے اور سرکاری بسوں پر لٹکنے والوں کی مشکلات کا اندازہ کیونکر ہوسکتا ہے ۔ جن کے جانور ائیر کنڈیشنڈ ماحول میں رہتے ہیں ۔ انکا بھلا ایسے لوگوں سے کیا واسطہ جن پر بجلی بند کریں تو وہ مرجاتے ہیں اور استعمال کریں تو بلوں کو ہاتھوں خود اپنا گلا گھونٹ دیتے ہیں ۔ یورپ کے بڑے بڑے اسکولوں میں اپنے بچوں کا داخل کروانے والے غریب عوام کے اس کرب کو کسیے سمجھیں کہ چند سکوں کی کمی کی خاطر یہ عوام اپنوں بچوں کا اسکول سے نام کٹوانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ اور پھر لیٹ فیس کے نام پر معصوم ذہنوں میں اپنی محرومی کے بارے میں کیسے کیسے سوال اٹھتے ہونگے ۔ جب ان کو بھوک کا علم ہی نہیں تو پھر یہ کیا جانیں کی بھوکی عوام کیا ہیں ۔
مشرف جائے ، یا کوئی اور جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ایک عام آدمی کا عام آدمی کے عہدے پر ہی فائز رہنا ہے ۔ اس کا کام ہی غریب اور مہنگائی کی چکی میں پسنا ہے ۔ اور کوئی آ بھی جائے تو کونسا اس کا غمگسار ہونا ہے ۔یہ اقتدار تو بڑے لوگوں کا کھیل ہے ۔ اور کھیلنے کا حق بھی انہی لوگوں کو ہے ۔ عوام کا کام صرف ہر کسی کے گول پر تالی بجانا ہے ۔ بھنگڑے ڈالنا ہے یا پھر اپنی ٹیم کے ہارنے پر لڑنا مرنا ہے ۔ یہ نظام ہے ۔ جو ہم بدلنا نہیں چاہتے ۔ اس کے لیئے احتجاج نہیں کرنا چاہتے ۔ کاش کوئی بھوک سے بلبلاتا ہوا ، بل ادا نہ ہونے پر میٹر کٹوانے والا ، اسکو ل کی فیس نہ بھرنے والا کوئی عام آدمی ان خواہشات کلبلاتے ہوتے لاکھوں کروڑوں مجبوروں کا لیڈر بن کر آگے آسکے ۔ مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم احتجاج کسی لیڈر کے لیئے ، یا کسی آمر کے خلاف نہ کریں بلکہ اس نظام کے خلاف کریں جہاں اقتدار صرف چند لوگوں کے درمیان ٹینس کی گیند بنی ہوئی ہے ۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ہر احتجاج صرف اپنی بے بسی اور ناعقلی کا ہی مذاق اڑانا ہے اور کچھ بھی نہیں ۔