آئین پاکستان کے مطابق غیرمسلم اقلیت۔جاسم صاحب اپ قادیانیوں کیا مانتے ہیں۔۔۔؟؟؟
آئین پاکستان کے مطابق غیرمسلم اقلیت۔
کافر انکار کرنے والے کو کہتے ہیں۔ قادیانی رسول اللہﷺ کو نبی و رسول مانتے ہیں لیکن آخری نہیں۔ یوں وہ عقیدہ ختم نبوت کے منکر ہیں، رسول کریمﷺ کے منکر نہیں ہیں۔
یہ عقیدہ ختم نبوت کی تعریف ہے اسلام کی نہیں ۔ قادیانی اسے تسلیم نہیں کرتے۔ قادیانی رسول اللہﷺ کو نبی و رسول مانتے ہیں اور اس بنیاد پر خود کو مسلمان تصور کرتے ہیں۔ دیگر مسلمان ان کو عقیدہ ختم نبوت رد کرنے پر کافر گردانتے ہیں۔ اسے عقیدہ کا اختلاف تو کہا جا سکتا ہے، کافر کی تعریف کے تحت کفر نہیں۔ قادیانی اگر یہود و نصاریٰ اور دیگر غیرمسلمین کی طرح رسول کریم ﷺ پر سرے سے ایمان ہی نہ لاتے تو بائی ڈیفینیشن کافر کہلاتے۔میرے نذدیک اللہ نے انبیاء ، رسول اور پیغمبر اتنے سارے اس لیئے بھیجے کہ ہر بار لوگ اس پیغام کو تبدیل کردیتے تھے ۔
مگر آپ ﷺ کو بھیجنے کے بعد قرآن محفوظ کردیا و ہ پیغام محفوظ ہوگیاتو پھر کسی نئے نبی ، رسول یا پیغمبر کی کیا ضرورت رہ گئی۔
اب کوئی کلمہ ہی صحیح سے نہیں سمجھ رہا تو کیا مسلمان کہلائے؟؟
- جب پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم ہو رہی تھی، پنجاب کی تقسیم کے لیے ریڈکلف کمیشن بنا تھا، پنجاب کو اس بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان میں شامل ہوں گے اور جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں وہ بھارت کا حصہ ہوں گے۔ گورداسپور کا علاقہ جہاں قادیان واقع ہے، اس علاقہ کی صورتحال یہ تھی کہ اگر قادیانی آبادی خود کو مسلمانوں میں شامل کراتی تو یہ خطہ زمین پاکستان کے حصہ میں آتا، اور اگر قادیانی گروہ مسلمانوں سے الگ شمار ہوتا تو گورداسپور کا علاقہ بھارت کے پاس چلا جاتا۔ اس وقت قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے، جو مرزا غلام احمد قادیانی کا فرزند اور مرزا طاہر احمد کا باپ تھا، اپنا کیس مسلمانوں سے الگ پیش کر کے یہ فیصلہ تاریخ میں ریکارڈ کروایا کہ قادیانی خود کو مسلمانوں سے الگ قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ چودھری ظفر اللہ خان نے مرزا بشیر الدین محمود کی ہدایت پر قادیانیوں کی فائل مسلمانوں سے الگ ریڈکلف کمیشن کے سامنے پیش کی جس کی بنیاد پر گورداسپور غیر مسلم اکثریت کا علاقہ قرار پایا اور بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں بھارت کو کشمیر کے لیے راستہ ملا اور اس نے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور آج بھی لاکھوں کشمیری عوام بھارت کے تسلط اور وحشت و درندگی کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
یہ واقعہ بالکل غلط ہے اور بغض قادیانیت میں لکھا گیا ہے۔ قادیانی لیڈر مرزا بشیر الدین محمود دیگر لیڈران تحریک پاکستان کی طرح یہی سمجھتے تھے کہ پورا پنجاب پاکستان کا حصہ بنے گا۔ اسی لئے انہوں نے پاکستان ہجرت کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔ اور جب پارٹیشن سے قبل معلوم ہوا کہ قادیان بھارت کا حصہ بننے جا رہا ہے تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی اوّل دن سے حمایت پر پاکستان ہجرت کی۔ اور پھر وہاں جا کر نئے سرے سے قادیانیوں کا شہر چناب نگر بسایا۔واقعی؟
اگر یہ بات درست ہے تو یقیناًاحمدی ایک الگ امت ہیں یعنی غیر مسلم ہیں
تحریک پاکستان کے ہیروز: ملک کے پہلے وزیر خارجہ چوہدری ظفراللہ خان (جو کٹر قادیانی تھے) بانی پاکستان محمد علی جناح کا کوئٹہ میں استقبال کر رہے ہیںکسی کے زخموں پر نمک بالکل بھی نہیں چڑک رہا۔۔۔۔۔
یہ بات درست ہو تب بھی، اور غلط ہو تب بھی، قادیانی غیر مسلم ہیں۔ کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا تعلق اس کے عقیدے سے ہے۔واقعی؟
اگر یہ بات درست ہے تو یقیناًاحمدی ایک الگ امت ہیں یعنی غیر مسلم ہیں
وضاحت کے لیے پوچھ رہا ہوں کہ غیر مسلم اور کافر کا ایک ہی معنی ہے یا دونوں میں کوئی فرق ہو گا؟ہ واقعہ تو اس تناظر میں بیان کیا گیا تھا کہ کن کن مواقع پر قادیانیوں نے خود تسلیم کیا کہ وہ غیر مسلم ہیں۔ خیر آج وہ نہ بھی مانیں تب بھی ان کا کفر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
دونوں کا ایک ہی مطلب ہے۔وضاحت کے لیے پوچھ رہا ہوں کہ غیر مسلم اور کافر کا ایک ہی معنی ہے یا دونوں میں کوئی فرق ہو گا؟
عقلِ عام کی روشنی میں دیکھا جائے تو مثال کے طور پر ایک شخص پر خدا کا پیغام مکمل واضح ہو گیا اور اب وہ جانتے بوجھتے اس کا انکار کر رہا ہے تو اسے قرآن کی اصطلاح میں کافر ہی کہا جائے گا۔دونوں کا ایک ہی مطلب ہے۔
پھر بھی آپ کہتے ہیں تو میں کسی عالمِ دین سے پوچھ لوں گا تاکہ شک کی کوئی گنجائش نہ رہے۔
بات آپ کی درست ہے عرفان صاحب فرق موجود ہے۔ جہاں تک میرا مطالعہ ہے علمائے کرام بھی یہ فرق تسلیم کرتے ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اللہ نے ہدایت کا بندوبست نہ کیا ہو اور تمام گذشتگان و آئندگان تک خدا کا پیغام پہنچا ہے اور پہنچے گا۔عقلِ عام کی روشنی میں دیکھا جائے تو مثال کے طور پر ایک شخص پر خدا کا پیغام مکمل واضح ہو گیا اور اب وہ جانتے بوجھتے اس کا انکار کر رہا ہے تو اسے قرآن کی اصطلاح میں کافر ہی کہا جائے گا۔
لیکن ایک شخص تک پیغام پہنچا ہی نہیں یا واضح ہی نہیں ہوا تو عقل تقاضا کرتی ہے کہ اسے اسی درجہ میں نہ رکھا جائے۔
اس لیے پوچھا۔
یہاں ذہن میں کچھ تحفظات موجود ہیں۔جہاں تک میرا مطالعہ ہے علمائے کرام بھی یہ فرق تسلیم کرتے ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اللہ نے ہدایت کا بندوبست نہ کیا ہو اور تمام گذشتگان و آئندگان تک خدا کا پیغام پہنچا ہے اور پہنچے گا۔
واضح پیغام پہنچانا اور چیز ہے، کسی پر پیغام واضح ہونا دوسری چیز ہے۔ جہاں تک پیغام پہنچانے کی بات ہے تو پیغمبروں کی طرف سے اس کا جواب سورۃ یٰسین میں ہے کہیہاں ذہن میں کچھ تحفظات موجود ہیں۔
پیغام پہنچنے اور اس پر شرحِ صدر ہو کر ایمان لانے میں فرق ہے۔ پیغمبروں کا بھی معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے صرف پیغام پہنچایا ہی نہیں بلکہ اسے آخری درجے میں واضح کر دیا۔ اور ہر قوم کے لیے اس کی مدت بھی مختلف رہی ہے۔ اس کے بعد پیغمبروں کی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے فیصلے کے تحت انہیں دنیا میں ہی عذاب کی سزا دی گئی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ حق آخری درجے میں واضح ہوا ہے یا نہیں اس کا علم صرف اور صرف اللہ ہی کو ہے۔
اب خدا کا آخری پیغام پہنچ چکا ہے، اس پر تو اتفاق کیا جا سکتا ہے، لیکن دنیا کے ہر انسان پر حق آخری درجے میں واضح ہوا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ اور اگر یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا تو ہر غیر مسلم کو کافر کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
(اس مراسلے کو محض طالب علمانہ گزارشات پر ہی محمول کیا جائے۔)
جیسا کہ روایات میں ہے کہ ہر قوم پر پیغمبر بھیجے گئے تھے۔ اور انھوں نے اللہ کا پیغام اپنی قوم تک پہنچایا تھا۔ اہلِ کتاب کی ہی مثال لیں۔ یہودی اپنے وقت کے مسلمان تھے۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے بعد یہودیوں نے جب انھیں نبی ماننے سے انکار کیا تو وہ اسی وقت سے غیر مسلم یا کافر ہوگئے۔ اب مسلم صرف وہ تھا جس کا ایمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی شریعت پر تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت صحیح العقیدہ نصاریٰ حق پر تھے۔ لیکن جب انھوں نے خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا نبی اور رسول ماننے سے انکار کیا تو دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے۔ اب صرف وہ مسلمان ٹھہرا جو شریعتِ محمدی کا پیروکار ہے۔عقلِ عام کی روشنی میں دیکھا جائے تو مثال کے طور پر ایک شخص پر خدا کا پیغام مکمل واضح ہو گیا اور اب وہ جانتے بوجھتے اس کا انکار کر رہا ہے تو اسے قرآن کی اصطلاح میں کافر ہی کہا جائے گا۔
لیکن ایک شخص تک پیغام پہنچا ہی نہیں یا واضح ہی نہیں ہوا تو عقل تقاضا کرتی ہے کہ اسے اسی درجہ میں نہ رکھا جائے۔
اس لیے پوچھا۔
یہ کونسا ان تک مخصوص ہے ہر مذہبی طبقہ دوسروں کو ایسا ہی کہتا آیا ہے۔ مجھے تو (اس بات میں) تمام ہی سچے معلوم ہوتے ہیںمیری رائے میں اس تاریخی قضیے کی بِنا دراصل یہی ہے۔
ایک شخص نبی ہونے کا دعوی کرے، رسول ہونے کا دعوی کرے یا خدا ہونے کا دعوی کر ڈالے، تو عام طور پر یہی ہوتا آیا ہے کہ لوگ لعن طعن کریں گے اور اگر ممکن ہو تو قانون حرکت میں آجائے گا، اور کچھ عرصے بعد معاملے کی محض تاریخی حیثیت ہی رہ جائے گی۔
لیکن اگر ایک شخص یہ دعوی کرے کہ میں رسول ہوں اور لوگوں سے اصرار کرے کہ مجھے رسول مانو بھی، تو یہاں معاملہ شدت اختیار کرے گا۔ اور بات یہی تک نہ رہے بلکہ اسے رسول نہ ماننے والوں کی تکفیر بھی کی جائے تو پھر معاملے کا انتہائی شدت اختیار کرنا بدیہی ہے۔
مسلمانوں میں آج قادیانیوں کے بارے میں جو شدید نفرت پائی جاتی ہے وہ دراصل اس ردِ عمل کا نتیجہ ہے جو قادیانیوں کی جانب سے تمام مسلمانوں کو مرزا غلام احمد کو رسول نہ ماننے پر کافر قرار دینے پر ہوا۔ اس کے اثرات دہائیاں گزرنے کے باوجود کم نہیں ہوئے۔