میں نے آپ کو ہرگز ہرگز دانستہ یا غیر دانستہ قادیانی مذہب سے نہیں جوڑا۔
معذرت کہ جو ثبوت گزشتہ مراسلوں میں اکٹھے کر کے دکھا چکا ہوں، ان کی روشنی میں آپ کی اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے۔ خاص طور پر جب یہ رویہ اس فورم پر نہایت کھلے الفاظ میں بار بار دیکھ بھی چکا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے بعد ، قرون اولیٰ کے علماء کے فتاویٰ کے بعد 7 ستمبر 1974 کے آئین پاکستان کے تحت 295 بی کے قیام کے بعد ’’دلیل دلیل ‘‘ کا کھیل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا اور 295 بی قادیانیت کے مذہب میں آخری کیل بن گئی۔
مجھے ابھی تک یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کسی اور کو تو یہ اجازت دینے کو تیار نہیں کہ وہ جھوٹے نبی کو جھوٹا ثابت کرنے کی نیت سے بھی اس سے دلیل کے ساتھ مقابلہ کر لے، لیکن کسی وجہ سے ریاست پاکستان کو اس میں کوئی خصوصی استثنیٰ بھی دینا چاہتے ہیں۔ قرآن کے نزول اور 1974ء کے درمیان کتنے برس کا وقفہ رہا ہے، گن کر بتا سکتے ہیں؟
فتاویٰ الھندیہ کا اقتباس بھی پیش کر چکا ہوں۔ اس کی کوئی وجہ بتا سکتے ہیں کہ آپ ان علماء کے ساتھ کس بنیاد پر اختلاف کر رہے ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ ان علماء کے ساتھ آپ اختلاف کر سکتے ہیں جنہیں واضح طور پر اس بات کی سمجھ ہے کہ جھوٹے سے دلیل طلب کرنے کا مقصد اس کے سچ ہونے کا امکان دل میں رکھنے کے علاوہ بھی کچھ ہو سکتا ہے،جبکہ دوسری جانب میں ایسے علماء کے ساتھ اختلاف نہیں کر سکتا جن کو اتنی بنیادی بات تک سمجھ نہیں آئی؟
کیا فتاویٰ الھندیہ میں شامل فتاویٰ بھی "مرزا قادیانی ملعون کے پیروکاروں" نے لکھے ہوئے ہیں؟
سوال : جھوٹے مدعی نبوت (یعنی نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والے)سے معجزہ طلب کیا جاسکتا ہے ؟
جواب : اگر مدعیِ نبوت سے اِس خیال سے کہ اس کا عجز ظاہر ہو معجزہ طلب کرے تو حرج نہیں او راگر تحقیق کے لئے معجزہ طلب کیا کہ یہ معجزہ بھی دکھا سکتا ہے یا نہیں تو فوراً کافر ہوگیا ۔
(الفتاوٰی الھندیۃ، کتاب السیر،الباب التاسع فی احکام المرتدین ،ج۲،ص۲۶۳)
مزید یہ کہ
اب اس کے بعد بھی آپ کسی بھی طریقے سے دلیل دلیل کی رٹ پچاس ہزار طریقوں سے بھی دہرائیں تو میں آپ کو وہی جواب دوں گا۔
بار بار دہرانے سے ایک غلط جواب درست نہیں ہو جاتا۔
اور ہاں میں آپ سے اگر سورہ احزاب کی آیت 40 کا اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 295 بی کے مطالعے کی گذارش کروں تو اس کو ہرگز ہرگز کوئی الزام نہ سمجھئے گا۔
ایک کام کریں۔ سورہ احزاب کی آیت 40 کا متن اور ترجمہ یہاں لکھ دیں۔ آئین کا آرٹیکل 295 بی بھی یہاں لکھ دیں۔ اس کے بعد، چونکہ آپ انہی دو کی تکرار کر رہے ہیں، تو ہم سب کو بغیر کسی اور متن سے استفادہ کرتے ہوئے بتائیں، کہ ان میں اس سوال کا جواب کہاں ملتا ہے جو متعدد بار نہایت واضح الفاظ میں بیان کیا جا چکا ہے؟ آپ کی سہولت کے لیے ایک بار پھر دہرا دیتا ہوں۔
سوال: دلیل مانگنے کا مقصد اس بات کی حقیقت واضح کرنا بھی ہو سکتا ہے کہ اگلے کے پاس دلیل نہیں ہے۔ ایسے میں کیوں دلیل مانگنے والا کافر ہو گا جبکہ اس نے ختم نبوت پر کسی قسم کا شک بھی دل میں نہیں رکھا؟ یہ تو بنیادی طور پر وہی کام ہے جو ان علماء نے کیا جن کی کارروائی کا حوالہ آپ بار بار دے رہے ہیں۔
چونکہ آپ بار بار صرف دو حوالوں، سوہ احزاب کی آیت 40 اور آئین کے آرٹیکل 295 بی، کی تکرار کیے جا رہے ہیں، تو برائے مہربانی ان دونوں مقامات سے ہی اس سوال کا جواب اخذ کر کے دیں۔ چلیں بسم اللہ کریں۔