F@rzana
محفلین
ان دنوں دہلی میں جو بزم آرائیاں ہیں ان کا سبب دہلی میں احمد فراز اور ان کے ہمراہ پاکستانی ادیبوں انتظار حسین، عطاءالحق قاسمی اور زہرہ نگاہ کی آمد ہے۔
یہ رونق اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں ملکوں کے ادیب مشترک قدروں کے علمبردار ہیں۔ چنانچہ کیا یونیورسٹیاں اور کیااکیڈمیاں انجمن ترقی اردو سےلے کر ساہتیہ اکیڈمی تک خصوصی نششتوں، جلسوں اور ملاقاتوں کا ایک سلسلہ رہا اور کسی نہ کسی صورت یہ شعر دہرایا جاتا رہا:-
دلوں کی رنجشیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
انہوں نے کہا ’شاعری ہمارے کلچر کہ حصہ ہے اور ہمارے خون میں شامل ہے۔ آپ جتنی لمبی تقریریں کر لیں لوگ خاموشی کے ساتھ سنتے رہیں گے اور جہاں آپ نے ایک حسبِ حال شعر پڑھا وہیں لوگوں میں ایک زندگی آجاتی ہے۔‘
شاعری پر اظہارخیال کرتے ہوئے انہوں نے دوٹوک لہجے میں کہا ’میں فیض احمد فیض کاجانشین یا بدل نہیں ہوں اور کبھی نہیں ہو سکتا۔ یہ بات میں نے بارہا کہی ہے۔ وہ بہت بڑے شاعر ہیں۔‘
احمد فراز نے اپنی مشہور غزل:-
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’میں نے یہ غزل فیض صاحب کی غزل 'گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے' سے متاثر ہوکر لکھی تھی۔‘
انہوں نے کہا ’مہدی حسن صاحب نے اسے اتنے اچھے ڈھنگ سے گایا ہے کہ یہ ان کے نام کردی جائے۔‘
فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی کے تقابل کو انہوں نے فضول قرار دیا اور کہا ’ساحر ہمارے زمانے کے بہترین شاعر تھے۔ کالج کے زمانے میں ہم انہیں پڑھتے تھے۔ ساحر نے کئ غزلیں فیض احمد فیض کے تتبع میں کہی ہیں۔ فیض بہت بڑے شاعر ہیں۔ دونوں کا مقابلہ فضول ہے۔‘
انہیں شاعری کی تحریک کہاں سے ملتی ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فراز نے کہا ’شاعری کے مختلف شیڈز ہیں اور الگ الگ اوقات میں الگ الگ رنگ غالب رہتے ہیں۔ مثلا کبھی کسی حادثے یا واقعے سے متاثر ہوکر شعر کہ دیا۔ ایک بار بیگم جونا گڑھ نے اپنی ایک خادمہ کو مار دیا اور کہا کہ ایسی کتیاں اور پلیاں تو میں نے بہت ماری ہیں۔ اس واقعے سے متاثر ہوکر میں نے ایک نظم 'بانو کے نام' لکھی۔ جب میں نے یہ نظم کراچی میں پڑھی تو کچھ لوگ مجھ سے ملنے آئےاور کہا ’آپ نے میری بچی کو زندہ جاوید کر دیا، میں مقتولہ کا باپ ہوں۔‘
اب چلو آؤ فراز اپنے قبیلے کی طرف
شاعری ترک کریں بوجھ اٹھانے لگ جائیں
اس شعر کے حوالے سے جب دریافت کیا گیا کہ شاعری کہیں صرف ملمع تو نہیں؟
فراز نے جواب دیا ’کبھی کبھی آدمی تھک جاتا ہے اور فرار چاہتا ہے۔ بھائی میں تو پٹھان ٹھہرا، بوجھ اٹھانے والا، خلیجی ممالک میں پٹھان تو بوجھ اٹھا ہی رہے ہیں۔ ایسے میں دل ذرا چاہتا ہے کہ شاعری سے علیحدہ ہو کر زور بازو دیکھا جائے اور کچھ مشقت والا کام بھی کیا جائے۔‘
احمد فراز ان دنوں دہلی کے سرکاری دورے پر ہیں۔ وہ کتابوں کی طباعت، اشاعت اور فروغ کے سلسلے میں دہلی کتاب میلے میں پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔ آئندہ مارچ میں پاکستان میں منعقد ہونے والے کتاب میلے میں بھارت کو مدعو کیا گیا ہے۔
وفد میں شامل دیگر شرکاءمیں ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید، سحر انصاری، عبدالجبار شاکر، خالد اقبال یاسر بھی ہیں۔
یہ رونق اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں ملکوں کے ادیب مشترک قدروں کے علمبردار ہیں۔ چنانچہ کیا یونیورسٹیاں اور کیااکیڈمیاں انجمن ترقی اردو سےلے کر ساہتیہ اکیڈمی تک خصوصی نششتوں، جلسوں اور ملاقاتوں کا ایک سلسلہ رہا اور کسی نہ کسی صورت یہ شعر دہرایا جاتا رہا:-
دلوں کی رنجشیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
انہوں نے کہا ’شاعری ہمارے کلچر کہ حصہ ہے اور ہمارے خون میں شامل ہے۔ آپ جتنی لمبی تقریریں کر لیں لوگ خاموشی کے ساتھ سنتے رہیں گے اور جہاں آپ نے ایک حسبِ حال شعر پڑھا وہیں لوگوں میں ایک زندگی آجاتی ہے۔‘
شاعری پر اظہارخیال کرتے ہوئے انہوں نے دوٹوک لہجے میں کہا ’میں فیض احمد فیض کاجانشین یا بدل نہیں ہوں اور کبھی نہیں ہو سکتا۔ یہ بات میں نے بارہا کہی ہے۔ وہ بہت بڑے شاعر ہیں۔‘
احمد فراز نے اپنی مشہور غزل:-
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’میں نے یہ غزل فیض صاحب کی غزل 'گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے' سے متاثر ہوکر لکھی تھی۔‘
انہوں نے کہا ’مہدی حسن صاحب نے اسے اتنے اچھے ڈھنگ سے گایا ہے کہ یہ ان کے نام کردی جائے۔‘
فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی کے تقابل کو انہوں نے فضول قرار دیا اور کہا ’ساحر ہمارے زمانے کے بہترین شاعر تھے۔ کالج کے زمانے میں ہم انہیں پڑھتے تھے۔ ساحر نے کئ غزلیں فیض احمد فیض کے تتبع میں کہی ہیں۔ فیض بہت بڑے شاعر ہیں۔ دونوں کا مقابلہ فضول ہے۔‘
انہیں شاعری کی تحریک کہاں سے ملتی ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فراز نے کہا ’شاعری کے مختلف شیڈز ہیں اور الگ الگ اوقات میں الگ الگ رنگ غالب رہتے ہیں۔ مثلا کبھی کسی حادثے یا واقعے سے متاثر ہوکر شعر کہ دیا۔ ایک بار بیگم جونا گڑھ نے اپنی ایک خادمہ کو مار دیا اور کہا کہ ایسی کتیاں اور پلیاں تو میں نے بہت ماری ہیں۔ اس واقعے سے متاثر ہوکر میں نے ایک نظم 'بانو کے نام' لکھی۔ جب میں نے یہ نظم کراچی میں پڑھی تو کچھ لوگ مجھ سے ملنے آئےاور کہا ’آپ نے میری بچی کو زندہ جاوید کر دیا، میں مقتولہ کا باپ ہوں۔‘
اب چلو آؤ فراز اپنے قبیلے کی طرف
شاعری ترک کریں بوجھ اٹھانے لگ جائیں
اس شعر کے حوالے سے جب دریافت کیا گیا کہ شاعری کہیں صرف ملمع تو نہیں؟
فراز نے جواب دیا ’کبھی کبھی آدمی تھک جاتا ہے اور فرار چاہتا ہے۔ بھائی میں تو پٹھان ٹھہرا، بوجھ اٹھانے والا، خلیجی ممالک میں پٹھان تو بوجھ اٹھا ہی رہے ہیں۔ ایسے میں دل ذرا چاہتا ہے کہ شاعری سے علیحدہ ہو کر زور بازو دیکھا جائے اور کچھ مشقت والا کام بھی کیا جائے۔‘
احمد فراز ان دنوں دہلی کے سرکاری دورے پر ہیں۔ وہ کتابوں کی طباعت، اشاعت اور فروغ کے سلسلے میں دہلی کتاب میلے میں پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔ آئندہ مارچ میں پاکستان میں منعقد ہونے والے کتاب میلے میں بھارت کو مدعو کیا گیا ہے۔
وفد میں شامل دیگر شرکاءمیں ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید، سحر انصاری، عبدالجبار شاکر، خالد اقبال یاسر بھی ہیں۔