فراز احمد فراز کی تازہ غزل - بجھا ہے دل تو غمِ یار اب کہاں‌ تو بھی

جیہ

لائبریرین
غزل
احمد فراز

بجھا ہے دل تو غمِ یار اب کہاں تو بھی
بسانِ نقش بہ دیوار اب کہاں تو بھی
بجا کہ چشمِ طلب بھی ہوئی تہی کیسہ
مگر ہے رونقِ بازار اب کہاں تو بھی
ہمیں بھی کارِ جہاں لے گیا ہے دور بہت
رہا ہے درپئے آزار اب کہاں تو بھی
ہزار صورتیں آنکھوں میں پھرتی رہتی ہیں
مری نگاہ میں ہر بار اب کہاں تو بھی
اُسی کو وعدہ فراموش کیوں کہیں اے دل!
رہا ہے صاحبِ کردار اب کہاں تو بھی
مری غزل میں کوئ اور کیسے در آئے
ستم تو یہ ہے کہ اے یار! اب کہاں تو بھی
جو تجھ سے پیار کرے تیری لغزشوں کے سبب
فراز ایسا گنہگار اب کہاں تو بھی​
 

محمد وارث

لائبریرین
؂شیئر کرنے کیلیے آپ کا بہت شکریہ۔

لا جواب غزل ہے


مری غزل میں کوئی اور کیسے در آئے
ستم تو یہ ہے کہ اے یار! اب کہاں تو بھی
 

محمد وارث

لائبریرین
نادان نے کہا:
قتیلِ غالب نے کہا:
شکریہ آپ کا

رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہئے کہ آرزو کیا ہے
یہ تو زبردستی شعر ٹھونسنے والی بات ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :oops:

بھائی صاحب لگتا ہے آپ کو شعر پسند نہیں‌ آیا۔ ایک اور حاضر ہے

ہم ہیں‌ مشتاق اور وہ نادان
یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے
:lol:
 

جیہ

لائبریرین
غزل ۔ احمد فراز

غزل
احمد فراز

دیوانگی خرابئ بسیار ہی سہی
کوئ تو خندہ زن ہے چلو یار ہی سہی
وہ دیکھنے تو آئے بہانہ کوئ بھی ہو
عذر بیمار پرسئ بیمار ہی سہی
رشتہ کوئ تو اس سے تعلق کا چاہیے
جلوہ نہیں تو حسرتِ دیدار ہی سہی
اہلِ وفا کے باب میں اتنی ہوس نہ رکھ
اس قحط زارِ عشق میں دو چار ہی سہی
خوش ہوں کہ ذکرِ یار میں گزرا تمام وقت
ناصح سے بحث ہی سہی تکرار ہی سہی
شامِ اسیری و شبِ غربت تو ہو چکی
اک جاں کی بات ہے تو لبِ دار ہی سہی
ہوتی ہے اب بھی گاہے بگاہے کوئ غزل
ہم زندگی سے بر سرِ پیکار ہی سہی
اک چارہ گر ہے اور ٹھکانے کا ہے فراز
دنیا ہمارے درپئے آزار ہی سہی​
 

ظفری

لائبریرین
استادِ محترم کو غزل پسند آئی ہے اور مجھے بھیجا ہے کہ میں اس غزل کی جا کر تعریف کروں ۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی تاکید کی ہے کہ اس بحر میں یا اس جیسی غزل لکھنے کی مشق کرو ۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
جوجو میں نے یہ دیکھا ہی نہیں‌تھا تو تعریف کیا کرتا!! میں اکثر دیکھتا ہوں کہ کلام موجود ہے لیکن شاعر کا نام غائب۔ محض‌کلام پڑھنا میرا مقصد نہیں ہوتا۔ لائبریری ہی ہر وقت حواس پر چھائی رہتی ہے نا۔
اب دیکھی ہے یہ غزل۔ فراز اہم شاعر ہے بہر حال۔
 

فاتح

لائبریرین
السلام علیکم
بہت عمدہ۔
فراز کے کلام کی تعریف نہ کرنا تو بخل ہے کہ بے شک عصرِ حاضر کا عظیم شاعر ہے۔ فراز صاحب اچھوتی تراکیب و مضامین کا جس طرز پر اہتمام کرتے ہیں یہ اُنہی کا خاصہ ہے۔ اب ذیل کے اشعار کو ہی لیجئے:
رشتہ کوئ تو اس سے تعلق کا چاہیے
جلوہ نہیں تو حسرتِ دیدار ہی سہی

خوش ہوں کہ ذکرِ یار میں گزرا تمام وقت
ناصح سے بحث ہی سہی تکرار ہی سہی
بہت شکریہ جیہ آپ کا یہ خوبصورت کلام شیئر کرنے پر۔
والسلام
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ہمیں بھی کارِ جہاں لے گیا ہے دور بہت
رہا ہے درپئے آزار اب کہاں تو بھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شامِ اسیری و شبِ غربت تو ہو چکی
اک جاں کی بات ہے تو لبِ دار ہی سہی
ہوتی ہے اب بھی گاہے بگاہے کوئ غزل
ہم زندگی سے بر سرِ پیکار ہی سہی


gp.gif

بہت خوب جیہ
 
Top