فراز احمد فراز کی لال مسجد پر لکھی جانے والی نظم

دوست

محفلین
وہ عجیب صبحِ بہار تھی

کہ سحر سے نوحہ گری رہی

مری بستیاں تھیں دُھواں دُھواں

مرے گھر میں آگ بھری رہی

میرے راستے تھے لہو لہو

مرا قریہ قریہ فگار تھا

یہ کفِ ہوا پہ زمین تھی

وہ فللک کہ مشتِ غبار تھا

کئی آبشار سے جسم تھے

کہ جو قطرہ قطرہ پگھل گئے

کئی خوش جمال طلسم تھے

جنھیں گرد باد نگل گئے

کوئی خواب نوک سناں پہ تھا

کوئی آرزو تہِ سنگ تھی

کوئی پُھول آبلہ آبلہ

کوئی شاخ مرقدِ رنگ تھی

کئی لاپتہ میری لَعبتیں

جو کسی طرف کی نہ ہوسکیں

جو نہ آنے والوں کے ساتھ تھیں

جو نہ جانے والوں کو روسکیں

کہیں تار ساز سے کٹ گئی

کسی مطربہ کی رگ گُلُو

مئے آتشیں میں وہ زہر تھا

کہ تڑخ گئے قدح و سَبُو

کوئی نَے نواز تھا دم بخود

کہ نفس سے حدت جاں گئی

کوئی سر بہ زانو تھا باربُد

کہ صدائے دوست کہاں گئی

کہیں نغمگی میں وہ بَین تھے

کہ سماعتوں نے سُنے نہیں

کہیں گونجتے تھے وہ مرثیے

کہ انیس نے بھی کہے نہیں

یہ جو سنگ ریزوں کے ڈھیر ہیں

یہاں موتیوں کی دکان تھی

یہ جو سائبان دھوئیں کے ہیں

یہاں بادلوں کی اڑان تھی

جہاں روشنی ہے کھنڈر کھنڈر

یہاں قُمقُموں سے جوان تھے

جہاں چیونٹیاں ہوئیں خیمہ زن

یہاں جگنوؤں کے مکان تھے

کہیں آبگینہ خیال کا

کہ جو کرب ضبط سے چُور تھا

کہیں آئینہ کسی یاد کا

کہ جو عکسِ یار سے دور تھا

مرے بسملوں کی قناعتیں

جو بڑھائیں ظلم کے حوصلے

مرے آہوؤں کا چَکیدہ خوں

جو شکاریوں کو سراغ دے

مری عدل گاہوں کی مصلحت

مرے قاتلوں کی وکیل ہے

مرے خانقاہوں کی منزلت

مری بزدلی کی دلیل ہے

مرے اہل حرف و سخن سرا

جو گداگروں میں بدل گئے

مرے ہم صفیر تھے حیلہ جُو

کسی اور سمت نکل گئے

کئی فاختاؤں کی چال میں

مجھے کرگسوں کا چلن لگا

کئی چاند بھی تھے سیاہ رُو

کئی سورجوں کو گہن لگا

کوئی تاجرِ حسب و نسب

کوئی دیں فروشِ قدیم ہے

یہاں کفش بر بھی امام ہیں

یہاں نعت خواں بھی کلیم ہے

کوئی فکر مند کُلاہ کا

کوئی دعوٰی دار قبا کا ہے

وہی اہل دل بھی ہیں زیبِ تن

جو لباس اہلِ رَیا کا ہے

مرے پاسباں، مرے نقب زن

مرا مُلک مِلکِ یتیم ہے

میرا دیس میرِ سپاہ کا

میرا شہر مال غنیم ہے

جو روش ہے صاحبِ تخت کی

سو مصاحبوں کا طریق ہے

یہاں کوتوال بھی دُزد شب

یہاں شیخ دیں بھی فریق ہے

یہاں سب کے نِرخ جدا جدا

اسے مول لو اسے تول دو

جو طلب کرے کوئی خوں بہا

تو دہن خزانے کے کھول دو

وہ جو سرکشی کا ہو مرتکب

اسے قُمچیوں سے زَبُوں کرو

جہاں خلقِ شہر ہو مشتعل

اسے گولیوں سے نگوں کرو

مگر ایسے ایسے غنی بھی تھے

اسی قحط زارِ دمشق میں

جنھیں کوئے یار عزیز تھا

جو کھڑے تھے مقتلِ عشق میں

کوئی بانکپن میں تھا کوہکن

تو جنوں میں قیس سا تھا کوئی

جو صراحیاں لئے جسم کی

مئے ناب خوں سے بھری ہوئی

تھے صدا بلب کہ پیو پیو

یہ سبیل اہل وفا کی ہے

یہ نشید نوشِ بدن کرو

یہ کشید تاکِ وفا کی ہے

کوئی تشنہ لب ہی نہ تھا یہاں

جو پکارتا کہ اِدھر اِدھر

سبھی مفت بر تھے تماشہ بیں

کوئی بزم میں کوئی بام پر

سبھی بے حسی کے خمار میں

سبھی اپنے حال میں مست تھے

سبھی راہروانِ رہِ عدم

مگر اپنے زعم میں ہست تھے

سو لہو کے جام انڈیل کر

مرے جانفروش چلے گئے

وہ سکوُت تھا سرِ مے کدہ

کہ وہ خم بدوش چلے گئے

کوئی محبسوں میں رَسَن بہ پا

کوئی مقتلوں میں دریدہ تن

نہ کسی کے ہاتھ میں شاخ نَے

نہ کسی کے لب پ گُلِ سخن

اسی عرصہء شب تار میں

یونہی ایک عمر گزر گئی

کبھی روز وصل بھی دیکھتے

یہ جو آرزو تھی وہ مرگئی

یہاں روز حشر بپا ہوئے

پہ کوئی بھی روز جزا نہیں

یہاں زندگی بھی عذاب ہے

یہاں موت بھی شفا نہیں

مشکل الفاظ

لعبت:: گڑیاں، مورتیاں، کھلونے

مطربہ: خوش کرنے والا، قوال

گلو: حلق، کنٹھ، گردن

دُزد: چور، سرقہ

قمچیوں: چابک، چھڑی، ہنٹر

قدح و سبو: بڑا پیالہ اور صبح کی شراب

باربُد: یونانی موسیقار جو المیہ دھنیں بناتا تھا

چکیدہ: ٹپکا ہوا

تاک: انگور

خم بدوش: شراب کا مٹکا اٹھانے والا
------------
احمد فراز کی لال مسجد پر لکھی جانے والی نظم اور اس کے دو اشعار کے دو مصرے اٹھا کر تقطیع کی کوشش کی ہے۔
مری بستیاں تھیں دُھواں دُھواں
1 1 2 1 2 1 1 2 1 2
مرے گھر میں آگ بھری رہی
1 1 2 1 2 1 1 2 1 2
اگر غلط ہو تو اصلاح کردیجیے۔ اس پر ایک گھنٹہ غور فرما فرما کر پیٹرن نکالا ہے۔
میں شاعر ہوگیا ہوں :mrgreen:
 
مجھے کچھ یوں لگتا ہے شاکر بھائی۔

1 2 2 1 2 2 1 2 1 2

ویسے مجھے بھی اس علم کا کوئی علم نہیں۔ پر یہیں احباب سے سن کر کے جو سمجھ سکا ہوں اس کی بنیاد پر بتا رہا ہوں۔ اب دیکھئے وارث بھائی، مغل بھائی، چاچو اور احمد بھائی وغیرہ کی کیا رائے ہے۔
 

دوست

محفلین
بھائی جی میں حروف پر غور نہیں کرتا۔ آوازوں اور سلیبل پر غور کرکے بڑا چھوٹا نکالتا ہوں۔ وارث صاحب نے ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند کی کل بہت اچھی وضاحت کی اور اب وہ میرے ذہن میں بیٹھ گئی ہے۔ اہل فن اسے کچھ بھی کہتے رہیں میری تربیت لسانیات اور انگریزی فونولوجی کے اثر کی وجہ سے میں اسے سلیلبز اور آوازوں کے چھوٹا بڑا ہونے کی صورت میں دیکھتا ہوں۔
تو مری اور میرے وغیرہ میں مجھے ایسا لگا کہ م زیر ہجائے کوتاہ 1 یعنی چھوٹے واؤل کے ساتھ اور ر ے یا ر ی ہجائے کوتاہ چونکہ میں اسے چھوٹے واؤل کے ساتھ پڑھ رہا تھا۔ اب آپ کی بات پر غور کروں تو لگتا ہے کہ لمبا واؤل بھی آتا ہے، واؤل یعنی زیر زبر پیش، تو پیٹرن شروع میں 2 2 بن جائے گا۔ اب یہ تو اساتذہ ہی بتا سکتے ہیں کہ ٹھیک کونسا ہے۔ میں تو ابھی کل اسے سمجھنے بیٹھا ہوں، آج یونہی دل کیا کہ اپنی ایک نظم نما کی تقطیع کروں، وہ تو کر لی لیکن اس کے بعد دل نہیں کیا مزید کام کرنے کو چناچہ احمد فراز کی اس نظم کا تجزیہ کرنے بیٹھ گیا۔ آتے جاتے اٹھتے بیٹھتے یہ پیٹرن نکل ہی آیا۔
آہ میں کتنا خوش ہوں آج، یعنی میں بھی تقطیع کرسکتا ہوں۔ شاباش میاں شاکر شاباش لگے رہو۔ :d
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ شاکر صاحب، نظم شیئر کرنے کے لیے۔

ایک درخواست یہ کہ اگر آپ نے تقطیع کی مشق کرنی ہے تو براہِ مہربانی 'اصلاحِ سخن' میں آ جائیں، یہاں کون دیکھے گا مور کا ناچ :)

مجھے خوشی ہے کہ آپ کو تقطیع کی مبادیات کی سمجھ آ رہی ہے اور بالکل صحیح سمجھ آ رہی ہے، آپ نے اس نظم کا بالکل صحیح پیٹرن یا وزن دریافت کر لیا ہے

وہ عجیب صبحِ بہار تھی

تقطیع:
وُ عجیب صب / حِ بہار تھی
1 1 2 1 2 / 1 1 2 1 2

کہ سحر سے نوحہ گری رہی

ک سَحَر سِ نو / حَ گَری رہی
1 1 2 1 2 / 1 1 2 1 2

اس پوری نظم میں 1 1 2 1 2 کی تکرار ہے، عروض میں اس کو "مُتَفَاعِلُن" کہتے ہیں یعنی

مُ 1 تَ 1 فا 2 عِ 1 لُن 2
 

دوست

محفلین
شکریہ آپ احباب کا۔
میں اگلی بار اصلاح سخن میں ہی آؤں گا۔ امید ہے اسے جلد ہی سیکھ لوں گا۔ پنجابی والا "چاکا" سا تھا ایک، وہ اتر گیا ہے انشاءاللہ اب رواں چلوں‌ گا۔
وسلام
 

الف عین

لائبریرین
تم کو متفاعلن متفاعلن سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے شاکر۔ وہ خود بخود آ جائے گی۔ اصل تو تم نے پہاڑ سر کر ہی لیا ہے۔ مبارک ہو۔۔
فراز کی نظم بھی اچھی ہے، افسوس ہے کہ یہ مجھے ملی نہیں ورنہ ’یہ میری نظمیں‘ میں شامل کر دیتا۔
 

فرخ

محفلین
بہت خوب شاکر بھائی
اس نظم سے وہ تلخ یادیں پھر تازہ ہوگئیں۔۔

اللہ تعالٰی لال مسجد کے شہیدوں کو جنت الفردوس میں بہترین جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔ ثمہ آمین
 

دوست

محفلین
تم کو متفاعلن متفاعلن سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے شاکر۔ وہ خود بخود آ جائے گی۔ اصل تو تم نے پہاڑ سر کر ہی لیا ہے۔ مبارک ہو۔۔
فراز کی نظم بھی اچھی ہے، افسوس ہے کہ یہ مجھے ملی نہیں ورنہ ’یہ میری نظمیں‘ میں شامل کر دیتا۔

جناب یہ سب آپ کی جوتیوں‌ کے طفیل ہی ہے ورنہ بندہ کہاں‌ کسی قابل۔ آپ کی اور وارث صاحب سمیت دوسرے احباب کی شفقت جاری رہی تو یہ کیسے نہیں‌ آئے گا۔
 
Top