احمد فراز کی چوتھی برسی کے موقع پر محفل کا طرحی مشاعرہ

احمد فراز کی چوتھی برسی کے موقع پر محفل کا طرحی مشاعرہ
السلام علیکم!
۲۵ اگست ، ۲۰۱۲ء کو احمد فراز کو ہم سے بچھڑے ہوئے چار برس بیت جائیں گے، مرحوم برصغیر پاک و ہند میں شاعری میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔اردو شعر و ادب میں ان کے مقام سے کون واقف نہیں۔اس سال احمد فراز کی چوتھی برسی پر ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے محفل پہ ایک طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
صراحت:
مصرع ھائے طرح: از : جناب احمد فراز
’’ پیام آئے ہیں اس یارِ بے وفا کے مجھے ‘‘
افاعیل: مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فعلن
اور
’’ اول اول کی دوستی ہے ابھی ‘‘
افاعیل: فاعلاتن مفاعلن فعلن
بتاریخ : ۲۵ اگست ۲۰۱۲ء
حاشیہ: کلام چسپاں کرنے کی تاریخ ۱۰ اگست تا ۲۵ اگست دوہزار بارہ ہے ۔۔
امید ہے آپ سب احباب شرکت فرمائیں گے۔
 
آج ۲۵ اگست جناب احمد فراز کی برسی ہے۔ اس سلسلے میں طرحی مشاعرے کے لیے شعراء حضرات کی غزلوں کا انتظار ہے۔ غزلیں چسپاں کرنے کی آخری تاریخ میں ۳۱ اگست تک توسیع کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ اس مشاعرے میں تقدیم و تاخیر کے اصول کو موخر کردیا گیا ہے۔

مندرجہ ذیل شعراء کو شرکت کی دعوت دی جارہی ہے۔

محترم الف عین اعجاز عبید ،محترم شاکرالقادری ،محترم محمد وارث ، محترم م۔ م۔ مغل ( مغزل)محترم فاتح الدین بشیرمحترم فرخ منظورمحترم محمود احمد غزنوی محترمہ غزل ناز غزل ناز غزل محترم محمد احمدمحترم سعود عالم ( ابن سعید)محترم ایس فصیح ربانی محترم نوید ظفر کیانی ظفر کیانی محترم خرم شہزاد خرممحترم @ایم۔اے۔راجامحترم محمد اظہر نذیرمحترم ذیشان، محترم محمد حفیظ الرحمٰن @ZEESHمحترم صبیح الدین شعیبی محترم عمران شناورمحترم نجم الحسن کاظمی محترم ندیم حفی محترم محمد امین محترم محمد بلال اعظم محترم مزمل شیخ بسمل محترم مہدی نقوی حجاز، محترم شاہد شاہنواز
(جاری ہے)
 
جناب احمد فراز کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے پہلی غزل مصرعِ طرح پر پیشِ خدمت ہے۔
غزل
محمد حفیظؔ الرحمٰن
تھپیڑے لو کے بھی جھونکے لگے صبا کے مجھے
جو اُس نے یاد کیا آج یوں، بھلا کے مجھے
جو اُس کے ساتھ نہ گزریں وہ پل سزا ہی تو ہیں
گزارنے ہیں مہ و سال اِس سزا کے مجھے
نجانے کِس کو دوعالم میں ڈھونڈتی ہے نظر
نجانے کوں یہاں چھپ گیا بُلا کے مجھے
طلب کے واسطے حسنِ طلب بھی ہے درکار
طریقے آئیں گے کب عرض ِ مُدّعا کے مجھے
یہ کِس کی نیم نگاہی کا ہے فسوں طاری
یہ کون دیکھ رہا ہے نظر بچاکے مجھے
ہزار باتوں میں میں ایک بات بھول گیا
وہ بات یاد بھی آئی تو دور جاکے مجھے
حفیظؔ جس کے لیے محوِ انتظار تھا میں
گزر گیا ہے ابھی اِک جھلک دِکھاکے مجھے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جناب احمد فراز کے لیے دوسری غزل دوسرے مصرعِ طرح پر پیشِ خدمت ہے۔
اک کلی تھی جو کھل گئی ہے ابھی
زندگی مسکرا اٹھی ہے ابھی
زندگی مثل سنگ ساکن تھی
مثل باد صبا چلی ہے ابھی
راہ جس میں بہت اندھیرا تھا
مشعلوں سے بھری پڑی ہے ابھی
رنگ تھا یاس کا، اترنے لگا
دھول تھی، دھول اڑ رہی ہے ابھی
اس کی آنکھیں کھلیں تو ہم سمجھے
دور شمع کوئی جلی ہے ابھی
دیکھئے مان کر جئیں کہ مریں
اک نصیحت تو اس نے کی ہے ابھی
عشق سے ایک انسیت ہم کو
درد سے ایک دوستی ہے ابھی
جان لے کر بھی ان کے چہرے پر
اک قیامت کی سادگی ہے ابھی
جن کو شمع بھی چھو نہیں پائی
ان پتنگوں میں سرکشی ہے ابھی
میری منزل نہ بن سکی منزل
راہ بھی راہ دیکھتی ہے ابھی
ہم کو مرنا تھا، زندگی لیکن
اک مصیبت بنی کھڑی ہے ابھی
اس سے پہلے مرا نصیب نہ تھی
میری قسمت مجھے ملی ہے ابھی
جیسے کوئی مکان خالی ہو
شہنواز ایسی شاعری ہے ابھی۔۔۔
 
غزل
محمد خلیلؔ الرحمٰن
’’پیام آئے ہیں اُس یارِ بے وفا کے مجھے‘‘
ستانا چاہ رہا ہے جو دور جاکے مجھے
میں اُن کی بزم سے یوں دفعتاً نکل آیا
عُدو پہ نظرِ کرم جب ہوئی دِکھا کے مجھے
میں دِل کے داغ چھُپائے کہاں تلک گھوموں
وہ صاف کرتے ہیں خنجر دِکھا دِکھا کے مجھے
اگرچہ دور ہو ، لیکن عجب ادائیں ہیں
کہ بھول جانے کو کہتے ہو یاد آکے مجھے
کسی کے شوخ تبسّم کی یاد آئی ہے
نسیمِ صبح نے چھیڑا ہے گُد گُداکے مجھے
۔۔۔ق۔۔۔
زمانے والو! مجھے اِس گماں میں رہنے دو
وہ چھُپ گیا ہے کسی طور چھب دِکھاکے مجھے
وہ آئے بزم میں اتنا خلیلؔ نے دیکھا
اِشارہ ایک کیا تھا نظر بچا کے مجھے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جناب من فراز صاحب کے دوسرے مصرع طرح پر بھی میں کل ہی پوسٹ کرسکتا ہوں لیکن یہ بحر میں پرکھ چکا ہوں کہ میری ٹھیک نہیں ہے۔ میں اس میں غلطیاں کرتا ہوں۔۔۔ اس لیے زیادہ اشعار لکھ کر پوسٹ کردوں گا تاکہ جو غلط ہیں وہ حذف کردئیے جائیں۔۔۔ مطلع اور مقطع پر کچھ زیادہ توجہ دے کر لکھ لوں گا۔۔۔ اگر منظور ہو تو پوسٹ کردوں؟؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جناب خلیل صاحب ۔۔۔ آپ نے جو شعر لکھا :
میں دِل کے داغ چھُپائے کہاں تلک گھوموں
وہ صاف کرتے ہیں خنجر دِکھا دِکھا کے مجھے
اس سے ہمیں ایک ہی شعر یاد آتا ہے:
میں نے اس کے سامنے پہلے تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجا رکھ دیا، دل رکھ دیا، سر رکھ دیا
(خدامعلوم یہ شعر کس کا ہے)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
لیجئے۔۔ غلطیوں کی بھرمار کے ساتھ دوسری غزل بھی حاضر ہے
دیا سمجھ کے گئے تھے وہ جب جلا کے مجھے
کسی نے مڑ کے بھی دیکھا نہ آزما کے مجھے
میں گردِ عشقِ خداوند کا اک ذرہ ہوں
سلام کرتے ہیں جھونکے سبھی ہوا کے مجھے
میں ایک سنگ تھا گر وہ مجھے گرا دیتا
میں آئینہ تھا اگر دیکھتا اٹھا کے مجھے
مری اوقات بتانے کو ایک شخص آیا
رُلا کے رکھ دیا جس نے ہنسا ہنسا کے مجھے
قبولیت کا یقیں مجھ کو گر نہیں ہوتا
حسین لفظ نہ لگتے مری دعا کے مجھے
انہیں یہ علم نہ تھا میں بھی ایک ہیرا ہوں
جو ایک سکہ سمجھ کر گئے چلا کے مجھے
یقین اپنے میں سارے وہیں پہ چھوڑ آیا
جہاں گمان ملے تیرے نقشِ پا کے مجھے
زمیں سے نیچے نہ تھے جو زمیں کے اوپر تھے
برے وہ لفظ لگے میری التجا کے مجھے
وہ یار تھے کہ عدو ، علم کچھ نہ ہوپایا
جو سوئے قتل گاہ لے گئے سجا کے مجھے
ہزاروں سال سے سویا ہوں اُن کو علم نہ تھا
جگانے آئے تھے جو لوگ گُدگُدا کے مجھے
جب ان کا کاٹ دیا سر تو میں بھی پچھتایا
بتا رہے تھے مطالب عدو وفا کے مجھے
میں کیا ہوں جان لیں تو برسوں تک نہ سو پائیں
ڈرا رہے تھے جو خنجر دِکھا دِکھا کے مجھے
میں چھوڑ آیا ترا شہر ، پر سبھی رستے
اُسی مقام پہ لائے گھما پھرا کے مجھے
بس ایک لمحے کو بھٹکانے لگا تھا واعظ
مطالبِ رہِ صدق و صفا بتا کے مجھے
میں اِس لیے بھی دوستوں کو دُور چھوڑ آیا
وہ دُور کرنے لگے تھے قریب آ کے مجھے
غریب کر گئے کچھ لوگ راہِ الفت میں
عجیب منزلوں کا ایک شخص پا کے مجھے
عجیب وقت ہے شاہد کسی نے کم سمجھا
کسی نے پیش کیا ہے بڑھا چڑھا کے مجھے
٭٭٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے شاہد، محض تین چار مصرعوں مین عروضی اغلاط ہیں، یہیں بتا ہی دوں اگرچہ یہ اصلاح سخن فورم نہیں۔
مری اوقات بتانے کو ایک شخص آیا
جو سوئے قتل گاہ لے گئے سجا کے مجھے
بس ایک لمحے کو بھٹکانے لگا تھا واعظ
میں اِس لیے بھی دوستوں کو دُور چھوڑ آیا
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بہت شکریہ۔۔۔ 17 اشعار کی غزل میں سے یہ اشعار حذف کردئیے جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، یہی میری کوشش تھی۔۔۔۔ اصلاح میں نہیں کرسکتا۔۔۔ معذرت خواہ ہوں۔
 

اسد قریشی

محفلین

السلام علیکم،
میں نے آج ہی کھاتا کھولا ہے، کیا مجھے اس طرحی مشاعرے میں شرکت کی اجازت ہے ؟
 
Top