محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
بالکل اجازت ہے جناب۔ ہم منتظررہیں گے
محترم شاہنواز صاحب،اس شعر پر آوے گی کی جگہ آئے گی کا استعمال زیادہ فصیح ہوتا۔۔۔ ۔
ہے اور کون یہاں پر کہ جس پہ آوے گی اب
تو کس کو آئی بجھانے قضاء! دیا کے مجھے
اس کے علاوہ۔۔۔
دیا کے مجھے ، کی جگہ دیا کہ مجھے ہونا چاہئے ، تاہم اس سے ردیف میں تغیر آئے گا، درست ہے کہ نہیں ۔۔۔ ؟
یہ شعر اچھا لگا۔۔۔
کسی کی راہ میں حائل میں سنگِ راہ نہیں
بڑھے ہیں لوگ ہمیشہ گِرا گِرا کے مجھے
بہت خوب۔۔
دیے ہیں دھوکے تو دنیا نے انتہا کے مجھے
خلوص، عشق، محبت، جنوں، وفا کے مجھے
میں اُس کے عشق کی رو پہلی دھوپ چھانتا تھا
مگر وہ چھوڑ گیادشت میں جلا کے مجھے
میں، عمر گزری کہیں چھوڑ آیا ہوں سب کچھ
ستاتے اب بھی ہیں جھونکے مگر صبا کے مجھے
۔۔۔ غزل لکھنا شاید آپ کے لیے اتنا مشکل نہ ہو اگر آپ اسے آسان سمجھیں اور اپنے لیے خود آسان بنائیں۔۔۔ ۔
صبا کے مجھے، کی جگہ ہوا کے مجھے شاید زیادہ بہتر ہوتا۔۔۔ میری غزل دیکھ لیجئے۔۔۔ امکانات بہت زیادہ ہیں کہ قافیہ بہت آسان ہے۔۔
دونوں غزلوں میں ہی قافیہ کی گنجائش بہت ہے مگر اس غزل کی ردیف نے زیادہ تنگ کیا ہے قافیہ کی بجائے۔
"صبا کے مجھے" کو "ہوا کے مجھے" سے بدل دیا ہے۔
اچھا جو شعر لگا وہ یہ ہے:
میں اُس کے عشق کی رو پہلی دھوپ چھانتا تھا
مگر وہ چھوڑ گیادشت میں جلا کے مجھے
شکریہ شاہد صاحب۔
غزل
محمد حفیظؔ الرحمٰنتھپیڑے لو کے بھی جھونکے لگے صبا کے مجھےجو اُس نے یاد کیا آج یوں، بھلا کے مجھےجو اُس کے ساتھ نہ گزریں وہ پل سزا ہی تو ہیںگزارنے ہیں مہ و سال اِس سزا کے مجھےنجانے کِس کو دوعالم میں ڈھونڈتی ہے نظرنجانے کون یہاں چھپ گیا بُلا کے مجھےطلب کے واسطے حسنِ طلب بھی ہے درکارطریقے آئیں گے کب عرض ِ مُدّعا کے مجھےیہ کِس کی نیم نگاہی کا ہے فسوں طارییہ کون دیکھ رہا ہے نظر چراکے مجھےہزار باتوں میں میں ایک بات بھول گیاوہ بات یاد بھی آئی تو دور جاکے مجھےحفیظؔ جس کے لیے محوِ انتظار تھا میںگزر گیا ہے ابھی اِک جھلک دِکھاکے مجھے
قبله خليل صاحب ، عاجز بھي نيم قافيه بندي كرتا هے كبھي كبھي، هميں بھي ياد ركھا كريں ۔۔۔۔ الله آباد ركھے آپكو ؎احمد فراز کی چوتھی برسی کے موقع پر محفل کا طرحی مشاعرہالسلام علیکم!۲۵ اگست ، ۲۰۱۲ء کو احمد فراز کو ہم سے بچھڑے ہوئے چار برس بیت جائیں گے، مرحوم برصغیر پاک و ہند میں شاعری میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔اردو شعر و ادب میں ان کے مقام سے کون واقف نہیں۔اس سال احمد فراز کی چوتھی برسی پر ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے محفل پہ ایک طرحی مشاعرے کا انعقاد احمد فراز کی چوتھی برسی کے موقع پر محفل کا طرحی مشاعرہالسلام علیکم!۲۵ اگست ، ۲۰۱۲ء کو احمد فراز کو ہم سے بچھڑے ہوئے چار برس بیت جائیں گے، مرحوم برصغیر پاک و ہند میں شاعری میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔اردو شعر و ادب میں ان کے مقام سے کون واقف نہیں۔اس سال احمد فراز کی چوتھی برسی پر ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے محفل پہ ایک طرحی مشاعرے کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔صراحت:مصرع ھائے طرح: از : جناب احمد فراز’’ پیام آئے ہیں اس یارِ بے وفا کے مجھے ‘‘افاعیل: مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فعلناور’’ اول اول کی دوستی ہے ابھی ‘‘افاعیل: فاعلاتن مفاعلن فعلنبتاریخ : ۲۵ اگست ۲۰۱۲ءحاشیہ: کلام چسپاں کرنے کی تاریخ ۱۰ اگست تا ۲۵ اگست دوہزار بارہ ہے ۔۔امید ہے آپ سب احباب شرکت فرمائیں گے۔
کیا جا رہا ہے۔صراحت:مصرع ھائے طرح: از : جناب احمد فراز’’ پیام آئے ہیں اس یارِ بے وفا کے مجھے ‘‘افاعیل: مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فعلناور’’ اول اول کی دوستی ہے ابھی ‘‘افاعیل: فاعلاتن مفاعلن فعلنبتاریخ : ۲۵ اگست ۲۰۱۲ءحاشیہ: کلام چسپاں کرنے کی تاریخ ۱۰ اگست تا ۲۵ اگست دوہزار بارہ ہے ۔۔امید ہے آپ سب احباب شرکت فرمائیں گے۔
بہت اعلیٰ حفیظ بھائی۔۔۔جناب احمد فراز کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے پہلی غزل مصرعِ طرح پر پیشِ خدمت ہے۔
غزلمحمد حفیظؔ الرحمٰنتھپیڑے لو کے بھی جھونکے لگے صبا کے مجھےجو اُس نے یاد کیا آج یوں، بھلا کے مجھےجو اُس کے ساتھ نہ گزریں وہ پل سزا ہی تو ہیںگزارنے ہیں مہ و سال اِس سزا کے مجھےنجانے کِس کو دوعالم میں ڈھونڈتی ہے نظرنجانے کوں یہاں چھپ گیا بُلا کے مجھےطلب کے واسطے حسنِ طلب بھی ہے درکارطریقے آئیں گے کب عرض ِ مُدّعا کے مجھےیہ کِس کی نیم نگاہی کا ہے فسوں طارییہ کون دیکھ رہا ہے نظر چراکے مجھےہزار باتوں میں میں ایک بات بھول گیاوہ بات یاد بھی آئی تو دور جاکے مجھےحفیظؔ جس کے لیے محوِ انتظار تھا میںگزر گیا ہے ابھی اِک جھلک دِکھاکے مجھے
واہ واہ صاحب کیا کہنے۔۔۔۔جناب احمد فراز کے لیے دوسری غزل دوسرے مصرعِ طرح پر پیشِ خدمت ہے۔
اک کلی تھی جو کھل گئی ہے ابھیزندگی مسکرا اٹھی ہے ابھیزندگی مثل سنگ ساکن تھیمثل باد صبا چلی ہے ابھیراہ جس میں بہت اندھیرا تھامشعلوں سے بھری پڑی ہے ابھیرنگ تھا یاس کا، اترنے لگادھول تھی، دھول اڑ رہی ہے ابھیاس کی آنکھیں کھلیں تو ہم سمجھےدور شمع کوئی جلی ہے ابھیدیکھئے مان کر جئیں کہ مریںاک نصیحت تو اس نے کی ہے ابھیعشق سے ایک انسیت ہم کودرد سے ایک دوستی ہے ابھیجان لے کر بھی ان کے چہرے پراک قیامت کی سادگی ہے ابھیجن کو شمع بھی چھو نہیں پائیان پتنگوں میں سرکشی ہے ابھیمیری منزل نہ بن سکی منزلراہ بھی راہ دیکھتی ہے ابھیہم کو مرنا تھا، زندگی لیکناک مصیبت بنی کھڑی ہے ابھیاس سے پہلے مرا نصیب نہ تھیمیری قسمت مجھے ملی ہے ابھیجیسے کوئی مکان خالی ہوشہنواز ایسی شاعری ہے ابھی۔۔۔